گنڈا پور کی گولی کا جواب گولی سے دینے کی دھمکی پر تحریک انصاف میں پھوٹ

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی جانب سے ایک مرتبہ پھر وفاق پر چڑھائی اور گولی کا جواب گولی سے دینے کے اعلان پر پی ٹی آئی میں پھوٹ پڑ گئی ہے۔ اس حوالے سے دو گروپ کھل کر سامنے آ گئے ہیں جبکہ ایک گروپ نےگنڈاپور کے بیانات سے اعلان لاتعلقی کر دیا ہے۔ گنڈاپور کی دھمکیوں کے حوالے تحریک انصاف کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ 9 مئی کے جارحانہ طرز عمل کا نتیجہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔تاہم اس کے باوجود علی امین گنڈا پور ایک بار پھر کارکنان کو تشدد پر اکسا رہے ہیں جس کا خمیازہ پارٹی کو بھگتنا پڑے گا۔ اس لئے پارٹی کو پرتشدد حکمت عملی اختیار کرنے کی بجائے پر امن سیاسی احتجاج کرنا چاہیے۔ تاہم دوسری جانب گنڈاپور کے حمایتی حلقوں کا کہنا ہے کہ پرامن احتجاج یا ریلیوں سے کچھ نہیں ہو گا۔ اب پارٹی کو آر یا پار کی حکمت عملی اختیار کرنا پڑے گی۔

پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق عمران خان کی رہائی کی احتجاجی تحریک کے حوالے سے پی ٹی آئی اندرونی اختلافات کا شکار ہو چکی ہے۔ علی امین گنڈا پور اور صوبائی صدر جنید اکبر کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں۔ علی امین نہ صرف جنید اکبر کی قیادت سے ناخوش ہیں بلکہ وہ خیبر پختونخوا کے اندر سخت احتجاج اور سپلائی بند کرنے کے بھی مخالف ہیں۔دوسری جانب جنید اکبر چاہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا سے سخت احتجاج شروع ہو، نیشنل گرڈ کو بجلی کی سپلائی بند کی جائے، ہائی ویز اور موٹرویز کو بند کیا جائے تاکہ وفاق پر دباؤ ڈالا جا سکے۔ ذرائع کے مطابق علی امین پارٹی معاملات میں جنید اکبر کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ احتجاج کے معاملے پر پارٹی تقسیم ہے۔ جبکہ کارکنان بھی پارٹی قیادت پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ ان کے مطابق 9 مئی کے واقعات کے بعد پارٹی قیادت کی جانب سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے گئے، جس سے کارکنان میں شدید مایوسی پیدا ہوئی ہے۔اسلام آباد ڈی چوک مارچ کے دوران علی امین گنڈاپور کی غیر حاضری اور بشریٰ بی بی کے ہمراہ کارکنان کو چھوڑ کر چلے جانے پر بھی کارکنان میں ناراضی پائی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قیادت کی عدم موجودگی اور غیر سنجیدگی سے کارکنوں کا مورال پست ہو گیا ہے۔

خیال رہے کہ پی ٹی آئی نے بانی چیئرمین عمران خان کی رہائی کے لیے احتجاجی تحریک کا باقاعدہ آغاز پشاور سے کر دیا ہے۔ احتجاج کا آغاز رنگ روڈ سے ہوا، جہاں کارکنان، منتخب نمائندے اور پارٹی قائدین نے شرکت کی اور موٹروے تک ریلی نکالی۔پشاور سے عمران خان کی رہائی کے لیے تحریک کا آغاز ایک ایسے وقت میں ہوا جب وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اسلام آباد کے گھیراؤ اور اسلحہ لے کر گولی کا جواب گولی سے دینے کا اعلان کر چکے ہیں۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف کے زیادہ تر قائدین علی امین گنڈاپور کی جانب سے پرتشدد احتجاج کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں جیل توڑ کر عمران خان کو رہا کروانے کے دعوے کرتے ہوئے اسلام آباد پر حملہ آور ہونے والے وزیراعلی علی امین گنڈا پور پولیس ایکشن شروع ہونے پر جوتے اٹھا کر خیبر پختون خواہ کی جانب فرار ہو گئے تھے تاہم اب چھ ماہ بعد انہوں نےاسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ پچھلی بار ہم نہتے تھے، لیکن اب ہم ہتھیار لے کر اسلام آباد آئیں گے نہ صرف کپتان کو اڈیالہ جیل توڑ کر رہائی دلوائیں گے بلکہ اگر اس مرتبہ سیکیورٹی اہلکار ہمیں گولیاں ماریں گے تو ہم بھی گولی کا جواب گولی سے دیں گے، تاہم پی ٹی آئی قیادت نے ہی گنڈاپور کے دعوؤں کی تردید کر دی ہے۔پارٹی قیادت کے مطابق عید کے بعد عمران خان کی رہائی کے لیے احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ ہوا تھا۔ جو اب عملی طور پر شروع ہو گیا ہے۔ جسے اب مرحلہ وار خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع سے پورے ملک تک پھیلایا جائے گا۔ پارٹی قیادت کا کہنا ہے کہ تمام احتجاج عمران خان کی ہدایات کے مطابق پُرامن طریقے سے ہوں گے۔

پارٹی رہنماؤں کا علی امین گنڈاپور کے بیان سے اعلان لاتعلقی کرتے ہوئے کہنا تھا کہ  علی امین گنڈاپور کی جانب سے مسلح ہو کر اسلام آباد پر حملہ آور ہونے کا جذباتی بیان شاید ان کا ذاتی ہے، پارٹی کی جانب سے ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ ویسے بھی علی امین گنڈا پور اس وقت صوبائی صدر نہیں ہیں اور احتجاج کے حوالے سے فیصلہ پارٹی کے قائدین ہی کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت ابھی تک 9 مئی سے نہیں نکلی ہے، دوبارہ ایسے حالات کی طرف دھکیلنے سے پارٹی کا ہی نقصان ہو گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘نو مئی کیسز میں ورکرز ابھی تک جیلوں میں ہیں۔ کئی کو سزا ہوچکی ہے۔ کئی عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ ایسے میں دھمکیاں دینا پارٹی کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے۔ پارٹی کارکنان مزید ایسے حالات برداشت نہیں کر سکتے۔’

پی ٹی آئی کے گنڈاپور مخالف دھڑے کا مزید کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ پارٹی ورکرز اور قائدین علی امین گنڈا پور سے ناراض ہیں اور یہ سوال پوچھتے دکھائی دیتے ہیں کہ گنڈاپور بتائیں کہ 9 مئی کیسز کو ختم کرنے کے لیے انھوں نے کیا کیا؟انھوں نے مزید کہا کہ مخالفین تو چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی احتجاج پر تشدد ہو اور پارٹی کی بدنامی ہو۔ تاہم اب اکثریتی پارٹی رہنما ریاست سے تصادم نہیں چاہتے بلکہ قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کرنا چاہتے ہیں جو ان کا آئینی حق ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت پارٹی ورکرز پرجوش ہیں اور دھمکی آمیز بیانات سے وہ مزید اشتعال میں آئیں گے۔ جس سے 9 مئی جیسا کوئی بڑا سانحہ رونما ہو سکتا ہے اس لئے گنڈاپور کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ایسے بیانات سے احتراز کرنا چاہیےْ

Back to top button