سپر ٹیکس اور 26ویں آئینی ترمیم کیسز: بینچ تشکیل، آئینی اختیارات پر ججز میں اختلاف

سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس اور 26ویں آئینی ترمیم سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران اہم قانونی نکات اور ججز کے ریمارکس سامنے آئے۔

سپر ٹیکس کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کی، جہاں جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم کسی کے حق میں فیصلہ دیں تو خوش ہوتے ہیں اور خلاف فیصلہ آئے تو ناراض ہو جاتے ہیں۔ وکیل فروغ نسیم نے جواب میں کہا کہ ہم بشر ہیں، حق میں فیصلہ آئے تو خوش ہو جاتے ہیں، خلاف آئے تو برا لگتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے انکم اور تشخیصی ٹیکس کے اطلاق سے متعلق سوالات اٹھائے، جس پر فروغ نسیم نے وضاحت دی کہ 1979 کے آرڈیننس میں ٹیکس کی دو اقسام، تشخیصی اور انکم ٹیکس، کی وضاحت موجود ہے اور ٹیکس کا تعین گزشتہ سال کی آمدن کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

فروغ نسیم نے آرٹیکل 10-A کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قدرتی انصاف صرف سنے جانے کا حق نہیں بلکہ مکمل شفافیت اور عدل کا تقاضا کرتا ہے۔ دوسری جانب، 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر آٹھ رکنی بینچ نے سماعت کی، جہاں وکیل عابد زبیری نے دلائل جاری رکھے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ بعض وکلاء نے آرٹیکل 191-A کو سائیڈ پر رکھنے کی تجویز دی ہے، جو آئین کے اصولوں کے منافی ہے، جبکہ جسٹس عائشہ ملک نے نشاندہی کی کہ عدالتی فیصلوں میں واضح ہے کہ چیلنج شدہ آئینی شق کو کیسے پرکھا جاتا ہے۔

بینچ کی تشکیل، فل کورٹ کے اختیارات اور سپریم کورٹ رولز 2025 پر بھی ججز میں اختلافِ رائے سامنے آیا۔ جسٹس مندوخیل نے میٹنگ منٹس منگوانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ جب تک یہ معاملہ واضح نہیں ہوتا، مقدمہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ جسٹس عائشہ ملک نے مؤقف اپنایا کہ کمیٹی کو بینچز بنانے کا اختیار ہے مگر فل کورٹ بنانے کا نہیں۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ججز کا اندرونی معاملہ ہے اور اسے عدالت میں زیر بحث نہ لایا جائے، جس پر جسٹس مندوخیل نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ انہیں جھوٹا کہا جا رہا ہے۔ بعد ازاں عدالت نے دونوں مقدمات کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

Back to top button