مخصوص نشستوں کا کیس : نظرثانی درخواستیں منظور ، پی ٹی آئی کو دی گئی نشستیں کالعدم قرار

سپریم کورٹ نے 6 کے مقابلے میں 7 ججوں کی اکثریتی رائے سے مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستیں منظور کرتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں دینے کا حکم کالعدم قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں اٹارنی جنرل نے دلائل مکمل کیے، جس کے بعد کیس کی سماعت مکمل ہوگئی۔ جسٹس امین الدین خان نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے نظرثانی درخواستیں منظور کرنے کا اعلان کیا۔
اس سے قبل 11 رکنی بینچ میں شامل جسٹس صلاح الدین پنہور نے کیس سننے سے معذرت کرلی۔ انہوں نے کہا کہ ایڈووکیٹ حامد خان نے ان پر جانبداری کا اعتراض اٹھایا، اور چونکہ عوامی تاثر عدلیہ کی غیر جانبداری پر اثرانداز ہو سکتا ہے، اس لیے وہ بینچ سے الگ ہو رہے ہیں۔
بینچ کے ٹوٹنے کے بعد عدالت نے وقفہ کیا اور دوبارہ 10 رکنی بینچ کے ساتھ سماعت جاری رکھی۔
حامد خان نے اپنے دلائل میں مؤقف اپنایا کہ چونکہ مخصوص نشستوں پر اصل فیصلہ 13 ججوں نے دیا تھا، اس لیے نظرثانی بھی اتنے ہی ججز کو سننی چاہیے، جیسا کہ قاضی فائز عیسیٰ کیس میں اصول طے ہو چکا ہے۔
دوسری جانب حکومتی متاثرہ ارکان کے وکیل مخدوم علی خان نے استدلال کیا کہ اگر کوئی جج کسی وجہ سے سماعت سے معذرت کرے تو بقیہ ججز پر مشتمل بینچ کو فل کورٹ ہی تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو ججز پہلے ہی الگ ہو چکے تھے اور اب ایک نے معذرت کی ہے۔
عدالت نے بینچ کی تشکیل پر حامد خان کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے سماعت جاری رکھی۔
پاکستان نے بھارت کو بیانیے، سفارت اور جنگی محاذ پر شکست دیدی، بلاول بھٹو
یہ کیس سپریم کورٹ میں 17 بار سنا گیا۔ 12 جولائی 2024 کو 13 رکنی فل کورٹ نے 8 ججوں کی اکثریت سے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ سنایا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور الیکشن کمیشن نے نظرثانی درخواستیں دائر کی تھیں۔
6 مئی 2025 کو آئینی بینچ نے نظرثانی درخواستوں کی سماعت شروع کی تھی، تاہم جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے ابتدائی سماعتوں میں ہی خود کو کیس سے الگ کر لیا تھا۔ آج 17ویں سماعت پر جسٹس صلاح الدین پنہور نے بھی کیس سننے سے معذرت کی۔
سنی اتحاد کونسل کی طرف سے فیصل صدیقی اور حامد خان جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے سلمان اکرم راجا نے عدالت میں دلائل دیے۔ تینوں فریقین — مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، اور الیکشن کمیشن — نے اپنی تحریری معروضات بھی عدالت میں جمع کرائیں۔