ٹیکسٹ بُک دانشور اور دہشت گردی کی حمایت
تحریر : یاسر پیر زادہ
بشکریہ: روزنامہ جنگ
یادش بخیر۔ 2005/06 میں جب ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آنا شروع ہوا تواُس وقت زیادہ تر حملے سیکورٹی فورسز پر کیے جاتے تھے، مجھے یاد ہے جب باجوڑ کے ایک مدرسے پر امریکی ڈرون حملہ کیا گیا تھا جس میں 69معصوم بچے شہید ہوئے تھے، تو اِس کے جواب میں اگلے ہی ماہ درگئی کے علاقے میں پاکستانی فوجیوں کے ایک قافلے پر خود کُش حملہ ہوا تھا جس میں 42 فوجی شہید ہوئے تھے۔ پھر یہ سلسلہ شروع ہو گیا، آئے روز خود کُش حملے معمول بن گئے، کبھی کسی فوجی چوکی پر اور کبھی کسی تھانے پر۔ طالبان کا یک سطری بیانیہ یہ تھا کہ امریکی فوج افغانستان پر قابض ہے اور پاکستانی سکیورٹی فورسز امریکہ کی اتحادی ہیں، لہٰذا اِن دونوں کے خلاف جہاد فرض ہے۔ ریاست پاکستان نے اِس بیانیے کا توڑ کرنے کی کافی کوشش کی مگر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی، عوام کی اکثریت پہلے تو یہ سمجھتی رہی کہ طالبان کے بھیس میں یہ بم دھماکے کوئی بیرونی طاقت کروا رہی ہے، لیکن جب طالبان مسلسل کئی برس تک اِن دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرتے رہے تو اُس کے بعد عوام نے اسے طالبان کا ردعمل سمجھنا شروع کردیا جس سے اِن دھماکوں کو ایک قسم کا جواز مل گیا یا یوں کہیے کہ لوگوں نے یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ چونکہ پاکستان امریکہ کی غیر قانونی جنگ میں اتحادی ہے اِس لیے جواباًہمارے اداروں پر یہ حملے کیے جا رہے ہیں۔ لیکن پھر اِن حملوں کی شدت میں نہ صرف بے انتہا اضافہ ہو گیا بلکہ اِن میں وہ لوگ بھی مرنے لگے جن کا فوج، پولیس، ایف آئی اے یا کسی بھی ادارے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ سویلین لوگوں پر حملوں کی وجہ سے دھیرے دھیرے عوام کی سوچ میں تبدیلی پیدا ہونے لگی اور پھر 2014ءمیں اے پی ایس اسکول کا واقعہ ہو گیا جس کے بعد دائیں بازو کے طبقات میں طالبان کی بچی کھچی حمایت بھی ختم ہو گئی، بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ انہوں نے کھلم کھلا طالبان کی حمایت سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اِس تمہید کو فی الحال یہیں چھوڑتے ہیں اور انڈیا چلتے ہیں۔
2004میں بھارتی ریاست آسام کے علاقے دھیماجی کے ایک کالج میں اُس وقت بم دھماکہ ہوا جب کالج میں یوم آزادی کی تقریبات جاری تھیں۔یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام (ULFA) نامی عسکریت پسند گروپ کی اِس کارروائی کے نتیجے میں 18ہلاکتیں ہوئیں جن میں زیادہ تر 12سے 14سال کی عمر کے بچے اور ان کی مائیں تھیں۔ یہ دھماکہ اس وقت ہوا جب مختلف اسکولوں کے طلباء اور اساتذہ کالج کے سیکورٹی گیٹ سے گزر رہے تھے۔ شروع میں اِس دھماکے کی ذمہ داری کسی تنظیم نے قبول نہ کی تاہم پولیس نے ULFA کو ہی اِس کا ذمہ دار ٹھہرایا جس نے عوام کو یومِ آزادی کی اِن تقریبات کا بائیکاٹ کرنےکےلیے کہا تھا۔ لیکن دوسری طرف اِس واقعے کے اگلے ہی روز ULFA کے سربراہ ارابندہ راج کھوا نے بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی قابض فوج اور اس کے ایجنٹوں نے تنظیم کے بائیکاٹ کی کال کو ناکام بنانے کےلیے اسکول کے بچوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ گویا اِس دھماکے کا اِس قدر شدید رد عمل ہوا کہ علیحدگی پسند تنظیم کو یہ بیان جاری کرکے وضاحت دینا پڑی کہ اُن کا اِس دھماکے سے کوئی تعلق نہیں جس میں چھوٹے چھوٹے بچوں کی ہلاکت ہوئی۔ لیکن بالآخر پانچ سال بعد اِس تنظیم نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرکے عوام سے معافی مانگی اور ایک پیغام میں کہا کہ تنظیم کی قیادت کو کچھ لوگوں نے دھماکے کے بارے میں گمراہ کیا تھا جس کی وجہ سے قیادت کو اس میں ملوث ہونے سے انکار کرنا پڑا۔ آج بھی شمال مشرقی بھارت میں علیحدگی پسند تحریکیں موجود ہیں مگر اب اُن میں وہ دم خم نہیں رہا، وہ عوامی حمایت سے محروم ہو چکی ہیں اور اِس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ جب اِن تنظیموں نے اپنی کارروائیوں میں بے گناہ لوگوں اور بچوں کو نشانہ بنایا تب عوام کو اِن سے ہمدردی نہیں رہی۔
پاکستان واپس آتے ہیں اور بلوچستان چلتے ہیں۔ ملک کا شاید ہی کوئی دانشور اور لکھاری ایسا ہو جسے بلوچستان کے حقوق کا ادراک نہ ہو اور وہ یہ نہ سمجھتا ہو کہ بلوچ عوام سے زیادتی ہو رہی ہے۔ لا پتا افراد کا مسئلہ ہو یا بلوچستان کے وسائل کا معاملہ، ملک دانشوروں نے ہمیشہ اِن مسائل پر بلوچستان کے حق میں بات کی ہے، اور اِن میں پنجاب کے لکھاری کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ لیکن گزشتہ چند ماہ میں بلوچستان میں پے در پے دہشت گردی کے جو واقعات ہوئے ہیں اُس سے بلوچ کاز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ دو ہفتے قبل مستونگ میں بم دھماکہ ہوا جس میں پانچ بچوں سمیت نو افراد ہلاک ہوئے، بلوچ لبریشن آرمی نے اِس واقعے کی ذمہ داری تو قبول نہیں کی لیکن اِس گروپ سے ہمدردی رکھنے والی بلوچ قیادت نے مذمت بھی نہیں کی۔ اسی طرح چار دن پہلے کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر جو خودکُش حملہ ہوا اور جس کی ذمہ داری بی ایل اے نے قبول کی، اُس میں 26افراد ہلاک اور 69 زخمی ہوئے۔ بی ایل اے نے اِس کا جواز یہ دیا ہے کہ اُس نے ٹرین پر سفر کرنے والے فوجیوں کو نشانہ بنایا۔ سارے ملک نے اِس کی مذمت کی سوائے اِن دہشت گردوں کے سیاسی ترجمانوں اور اُن نام نہاد دانشوروں کے جو بغضِ معاویہ میں اِس قدر آگے چلے گئے ہیں کہ اِس دہشت گردی کے بعد بھی انہوں نے پنجابیوں لتاڑنا ہی مناسب سمجھا، بی ایل اے کی شان میں دو لفظوں کی ٹویٹ نہ کرسکے۔ یہی ہمارا المیہ ہے، یہاں عام لوگوں کو کیا موردِ الزام ٹھہرائیں جب دانشوروں کا یہ حال ہو۔ دراصل ہمارے معاشرے کے وہ لوگ جو تھوڑی بہت سوچ بچار کر سکتے ہیں اور جنہیں میڈیا کا پلیٹ فارم دستیاب ہے وہ ٹیکسٹ بُک دانشور ہیں، اِن کے پاس کسی مسئلے کا حل نہیں ہے، اِن کا کام فقط اتنا ہے کہ ہر دھماکے کے بعد پنجاب کو مطعون کردیں۔ میری اِن سے گزارش ہے کہ کسی دن اُس پنجابی مزدور کے گھر جا کر تعزیت ہی کر آئیں جسے بی ایل اے والے شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کر دیتے ہیں، تاکہ انہیں دہشت گردی اور مزاحمت کا فرق تو معلوم ہو سکے۔ اِن ٹیکسٹ بُک دانشوروں کا مطمح نظر صرف اتنا ہے کہ کسی طرح ہر بات کا ملبہ پنجاب پر ڈال کر خود کو پروگریسو ثابت کر سکیں، اِن دانشوروں اور 2005/06کے دائیں بازو کے لکھاریوں میں کوئی فرق نہیں جو طالبان کی ہر کارروائی کا بالکل اسی طرح دفاع کرتے تھے جیسے یہ لوگ پنجابیوں کو گالیاں دے کر بالواسطہ طریقے سے بی ایل اے کا دفاع کرتے ہیں۔
’’سیاسی روبوٹ ‘‘
بی ایل اے نے اب اپنی کارروائیوں میں جس طرح بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے، اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ جو تھوڑی بہت ہمدردی انہیں عوام میں حاصل تھی وہ ختم ہو جائے گی۔ طالبان کے ساتھ پاکستان میں اور یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام کے ساتھ انڈیا میں یہی ہوا تھا۔