مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام کو مہنگی بجلی کے جھٹکے

حکومت نے مہنگائی کی چکی میں پسی عوام کو مہنگی بجلی کے جھٹکے لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ حکومت کی جانب سے سرکلر ڈیٹ کی ادائیگی کیلئے بینکوں سے لئے گئے قرض کے بعد بجلی کی قیمتوں میں اضافہ یقینی ہو گیا ہے۔ جس نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔
مبصرین کے مطابق بجلی کا سرکلر ڈیٹ دراصل حکمرانوں کی نااہلی اور بدانتظامی کا وہ بوجھ ہے جو پاکستانی عوام کو مہنگی بجلی کی صورت میں برداشت کرنا پڑتا ہے۔ عوام کو بلوں کی ادائیگی میں صرف بجلی کی قیمت ہی ادا نہیں کرنی پڑتی بلکہ انھیں کرپشن، غلط پالیسیوں اور ادارہ جاتی ناکامی کی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔ تاہم عوام کی جانب سے بھاری سرچارجز کی ادائیگی کے باوجود گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان میں توانائی کے شعبے کا سرکلر ڈیٹ شیطان کی آنت کی طرح مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ تاہم تازہ پیشرفت کے مطابق حکومت نے عوام کیلئے آئندہ 6سال تک بجلی کی فی یونٹ قیمت میں سوا تین روپے کا اضافہ کرتے ہوئے 18 بینکوں سے 1200 ارب روپے کا قرض لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حکام کے مطابق اس قرض سے سرکلر ڈیٹ کو سلسلہ وار ختم کیا جائے گا تاہم ماہرین کے مطابق سرکلر ڈیٹ کے ساتھ ساتھ اب حکومت کی جانب سے لئے گئے بھاری قرض کا بوجھ بھی عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا۔
ملک میں سرکلر ڈیٹ کی صورت میں قرضوں اور ادائیگیوں کی ایک ایسا مالیاتی دلدل موجود ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ بنیادی طور پر بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم سے وابستہ مختلف ادارے ایک دوسرے کے بڑے واجبات ادا کرنے میں ناکام رہتے ہیں جس کی وجہ سے ایک مالیاتی خسارہ پیداہوتا ہے جسے گردشی قرض یا سرکلر ڈیٹ کہتے ہیں۔ اکثر حکومتی ادارے ایک دوسرے کو بروقت ادائیگیاں نہیں کرتے جس کے نتیجے میں یہ قرض بڑھتا رہتا ہے۔ تاہم اب حکومت نے بجلی کے نرخوں میں کمی کے بہانے بینکوں سے قرض لے کر بجلی کا گردشی قرض یا سرکلر ڈیٹ ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ تاہم ناقدین کے مطابق اس حکومتی اقدام سے عوام کیلئے بجلی سستی ہونے کے امکانات معدوم ہیں۔ حکومت نے قرض لینے سے پہلے ہی عوام پر سوا تین روپے یونٹ کا بوجھ ڈال دیا ہے جبکہ حکومتی قرض سے آنے والے دنوں میں بجلی کی قیمت میں ہوشربا اضافہ متوقع ہے
خیال رہے کہ حکومت کی جانب سے پاور سیکٹر میں گردشی قرضوں کی پہلی بار ادائیگی نہیں ہو رہی بلکہ اس سے قبل ماضی میں بھی اس مد میں کئی سو ارب روپے کی ادائیگی کی جا چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق گردشی قرضوں کو ختم کرنے کے لیےحکومت کی جانب سے 2013 میں بھی 500 ارب کا مالی پیکج دیا گیا تھا تاہم اس کے بعد بھی بجلی کے گردشی قرض میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اب ایک بار پھر وفاقی حکومت کی جانب سے نئے بندوست کے تحت 1200 ارب بینکوں سے لے کر اس قرضے کو ختم کرنے کا نیا منصوبہ لایا گیا ہے۔ تاہم اس قرض کا بوجھ بھی عوام پر ڈالا جائے گا۔ آئندہ 6 سال تک بجلی صارفین اس نئے قرض کی ادائیگی 3روپے 25پیسے فی یونت سرچارج کی صورت میں ادا کرینگے۔ ناقدین کے مطابق حکومت نے سیٹلمنٹ، جزوی ادائیگیوں یا ری سٹرکچرنگ کے ذریعے صرف سرکلر ڈیٹ کو کم کرنے پر توجہ مرکوز کر رکھی ہےلیکن حکومت سرکلر ڈیٹ میں اضافے کو قابو کرنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کر رہی اسی لئے صرف ایک مہینے میں گردشی قرض مزید 47 ارب روپے بڑھ گیا ہے۔
ناقدین کے مطابق بجلی کی چوری، لائن لاسز، تاخیر سے ادائیگیوں، ناکافی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ، سبسڈی وغیرہ کو کنٹرول نہ کرنے کی وجہ سے گردشی قرض ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ ماہرین کے بقول حکومت کی جانب سے گردشی قرضے سے نمٹنے کے لیے بینکوں سے 1200 ارب روپے کی فنانسنگ سے بینکوں کو سود کی مد میں منافع ملے گا۔ جبکہ پاور کمپنیوں کے کیش فلو کی صورتحال بہتر ہوگی۔ تاہم ان سارے اقدامات کے باوجود صارفین کو ریلیف ملنے کے امکانات معدوم ہیں۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے سرکلر ڈیٹ کی ادائیگی کیلئے لئے گئے قرض سے عام صارفین کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ انھیں بجلی کے بلوں میں مزید سرچارجز کی صورت میں بھاری ادائیگیاں کرنی پڑیں گی فی الحال بجلی کی قیمت میں کمی کا کوئی امکان نہیں۔ تاہم اگر بینکوں سے لئے گئے قرض کے بعد بھی گردشی قرضے میں کوئی کمی نہ ہوئی تو بجلی کی قیمت میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ گردشی قرضہ اگر اسی طرح مسلسل بڑھتا رہا تو اگلے چند سالوں میں گردشی قرض کی ادائیگی کیلئے ایک اور ایسا ہی منصوبہسامنے آ سکتا ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان میں جہاں بجلی کی ترسیل و تقسیم میں نقائص اور چوری سےگردشی قرضے میں اضافہ ہوا ہے وہیں سولر کی طرف عوامی رجحان کی وجہ سے بجلی کی کھپت میں ہونے والی کمی سے کیپسیٹی پیمنٹ کی ادائیگی بھی بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔جب تک بجلی کے شعبے میں اصلاحات نہیں ہوتیں اور سسٹم میں نقائص اور چوری نہیں رکتی تب تک سرکلر ڈیٹ کا ایشو برقرار رہے گا اور اس کا خمیازہ عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا۔
