آزاد کشمیر میں عوامی احتجاج بڑے پیمانے پر پھیلنے کا خطرہ

ایک طرف ریاست آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری ہے تو دوسری طرف حکومت نے احتجاجی تحریک سے نمٹنے کی خاطر کشمیر کے مختلف علاقوں میں لینڈ لائن، موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا بند کر دیا ہے جس کے باعث رابطوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔ آزاد کشمیر حکومت نے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے وفاق سے اضافی پولیس اور فورسز طلب کر لی ہیں کیونکہ احتجاج بڑے پیمانے پر پھیلنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
کشمیر بھر میں ہڑتال کی کال دینے والوں کا کہنا ہے کہ خطے میں آٹے اور بجلی کی لگاتار اور رعایتی نرخوں پر فراہمی کے لیے دو سال قبل شروع ہونے والی اس تحریک میں اب کشمیری اشرافیہ کو حاصل مراعات میں کمی، مخصوص اسمبلی نشستوں کے خاتمے اور مفت تعلیم کی فراہمی جیسے اضافی مطالبات کو شامل کیا گیا ہے۔ ایکشن کمیٹی کا الزام ہے کہ اس مرتبہ احتجاج اس لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ حکومت دو سال قبل طے پانے والے معاہدے پر مکمل عمل درآمد میں بھی ناکام رہی ہے۔ یاد رہے کہ ایکشن کمیٹی کی جانب سے ہڑتال کی کال دیے جانے سے قبل نہ صرف آزاد کشمیر حکومت کی جانب سے ایک مذاکراتی ٹیم تشکیل دی گئی تھی بلکہ وفاق سے وزیر اعظم شہباز شریف کے نمائندوں نے بھی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ارکان سے بات کی تھی۔لیکن یہ مذاکرات ناکام رہے تھے۔
اگرچہ مظاہرین کا کہنا ہے کہ ان کا احتجاج مکمل طور پر پُر امن ہے تاہم ممکنہ خطرات کے پیشِ نظر انتظامیہ نے سکیورٹی اقدامات سخت کرتے ہوئے سرکاری اسپتالوں اور ریزرو پولیس فورس کی چھٹیاں منسوخ کر دی ہیں جبکہ حکومت پاکستان سے اضافی سکیورٹی فورسز کو کشمیر طلب کیا گیا ہے۔ آزاد کشمیر میں احتجاج کے پیشِ نظر مختلف سکولز کو بند کر کے ان عمارتوں کو فرنٹیئر کانسٹیبلری کے اہلکاروں کی عارضی رہائش گاہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ آزاد کشمیر کے وزیر داخلہ وقار نور کا کہنا ہے کہ ’چونکہ کشمیر کی پولیس بڑے پیمانے پر مظاہروں اور ممکنہ کشیدگی سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، اس لیے وفاق سے اضافی فورسز بلائی گئی ہیں۔
جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف سے پیش کیے جانے والے 38 نکات پر مشتمل ’چارٹر آف ڈیمانڈ‘ میں جو مطالبات شامل ہیں ان میں حکومتی اخراجات میں کمی سے لے کر اسمبلی نشستوں پر اعتراضات ، مفت تعلیم و علاج کی سہولت اور فضائی اڈے کے قیام سمیت متعدد ترقیاتی منصوبے شروع کرنا شامل ہیں۔ ایکشن کمیٹی کی جانب سے پیش کیے گئے اضافی مطالبات میں سرِفہرست مطالبہ حکمران اشرافیہ کی مراعات کا خاتمہ ہے۔ ایکشن کمیٹی کے مطابق حکومتی نمائندوں نے یہ تسلیم کیا تھا کہ اعلیٰ حکومتی شخصیات کو حاصل مراعات کا جائزہ لینے کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے گا، لیکن 15 ماہ گزرنے کے بعد بھی حکومت کی جانب سے اس ضمن میں مزید کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ان کا مطالبہ ہے کہ مراعات کے فوری خاتمے کے ساتھ اس ضمن میں فوری قانون سازی کی جائے۔ مطالبات میں کہا گیا ہے کہ حکمران شخصیات کو صرف ایک 1300 سی سی گاڑی کے استعمال تک محدود کیا جائے اور ان گھروں میں ذاتی کام کرنے والے سرکاری ملازمین کو ان کے متعلقہ محکموں میں واپس بھیجا جائے۔
یہ مطالبہ بھی ہے کہ حکومتی کابینہ سے وزرا کی تعداد کم کی جائے تاکہ خزانے پر بوجھ کو کم کیا جا سکے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کا الزام ہے کہ ‘مقامی وسائل کے بے دریغ ضیاع میں مہاجرین کے نام پر پاکستان میں موجود 12 حلقوں کا ایک بڑا کردار ہے۔‘ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا مطالبے ہے کہ ’کشمیر کے بجٹ سے ترقیاتی فنڈز کی ریاست سے باہر منتقلی کا غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی سلسلہ فوری بند کیا جائے۔‘ ایکشن کمیٹی کا دعویٰ ہے کہ ‘ان حلقوں کو حکومت پاکستان ایک ٹول کے طور پر استعمال کرتی ہے اور آزاد کشمیر میں ان حلقوں کے ممبران کو عدم استحکام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے ان حلقہ جات کو فوری ختم کیا جائے اور وہ مہاجرین جو خطے کے اندر رہائش پذیر ہیں انھیں ہی اسمبلی میں نمائندگی دی جائے۔’
ایکشن کمیٹی کا ایک اور بڑا مطالبہ یہ ہے کہ کشمیر میں 1947 سے اب تک انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے آنے والے مہاجرین کو مستقل آباد کر کے مالکانہ حقوق دیے جائیں۔ یاد رہے کہ یہ تمام افراد اب بھی مہاجرین کہلاتے ہیں جن کی ایک بڑی تعداد مختلف جگہوں پر قائم ’مہاجر کیمپوں‘ میں مقیم ہے۔ ایکشن کمیٹی کا کہنا ہے کہ آٹھ دسمبر 2024 کو ایکشن کمیٹی اور حکومت کے درمیان تحریری معاہدے میں یہ طے ہوا تھا کہ 90 دن کے اندر درج کیے گئے تمام مقدمات ختم کیے جائیں گئے لیکن تاحال مقدمات منسوخ نہیں کیے گئے۔
ایکشن کمیٹی کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ رینجرز کو کشمیر میں تعینات کرنا ریاست پر بیرونی حملہ تصور کیا جائے گا۔ یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ 1947 سے پاکستان میں رہنے والے کشمیری مہاجرین کے لیے آزاد کشمیر کی سرکاری نوکریوں میں کوٹہ یہاں بسنے والے عوام کے ساتھ نانصافی ہے۔ اس لیے اس کوٹے کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔‘ عوامی ایکشن کمیٹی کا الزام ہے کہ حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں بار بار مطالبات پر عمل در آمد کے لیے وقت دیا جاتا رہا مگر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔
جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے رُکن شوکت نواز میر کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر حکومت بظاہر نہ تو مطالبات پر عمل درآمد کا ارادہ رکھتی ہے اور نہ بات کرنے کا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے جو مذاکراتی وفد بھیجا تھا انھوں نے بجلی کی لاگت، حکومت اور عدلیہ کو دی جانے والی مراعات اور ریزرو سیٹوں جیسے عوامی مطالبات پر یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ یہ اُن کا مینڈیٹ ہی نہیں۔
کیا فلسطینی ریاست کے قیام پر پاکستان اسرائیل کو مان لے گا؟
تاہم اس الزامات کے جواب میں آزسد کشمیر کے وزیر داخلہ وقار نور نے بتایا کہ حکومت ہر وقت مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے مذاکرات میں ڈیڈ لاک کا الزام مظاہرین کی قیادت پر عائد کیا۔ اُنکا کہنا ہے کہ ایکشن کمیٹی والے خود کہتے ہیں کہ اُن کے 90 فیصد مطالبات مان لیے گئے ہیں جبکہ کچھ پر ایکشن کمیٹی سے کہا گیا ہے کہ آپ آئینی معاملات پر اسمبلی میں قانون سازی کریں۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ نشستوں اور مراعات کے خاتمے جیسے مطالبات راتوں رات پورے نہیں ہو سکتے کیونکہ اُن پر باقاعدہ قانون سازی درکار ہو گی۔ یہ بات ایکشن کمیٹی کو منطقی طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔
