خیبرپختونخوا میں وزیراعلیٰ اور گورنرکی باہمی جنگ تیز

خیبرپختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے مابین جاری کشیدگی اب معمول کی سیاسی چپقلش کی بجائے اختیارات، بیانیے اور طاقت کے حصول کی جنگ بن چکی ہے۔ تازہ پیشرفت کے مطابق خیبر پختونخوا حکومت اور گورنر کے درمیان 125 سالہ قدیم تاریخی ایڈورڈز کالج پشاور کے پرنسپل کی تقرری کے معاملہ پر اختلافات میں شدت آگئی ہے, گورنر فیصل کریم کنڈی کی جانب سے گنڈاپور کی مخالفت کے باوجود کالج کے پرنسپل کا نوٹیفکیشن جاری کرنے پر صوبائی حکومت نے کالج کو ہی اپنی تحویل میں لینے کا اعلان کرتے ہوئے گورنز کو حاصل تمام اختیارات معطل کر دئیے ہیں۔ ناقدین کے مطابق گورنر اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا میں بظاہر یہ اختلاف آئینی دائرہ کار کا تنازع لگتا ہے، مگر درحقیقت اس کے پیچھے وفاق و صوبے کی کشمکش، سیاسی انا اور جماعتی رقابت کی ایک گہری جڑیں موجود ہیں جنہوں نے اب تعلیمی اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا ہے۔

خیال رہے کہ ملکی سیاسی تاریخ میں مرکز اور صوبوں کے درمیان تناؤ کوئی نئی بات نہیں تاہم خیبرپختونخوا کے حالیہ منظرنامے میں جاری اختلافات ایک جنگ کا رخ اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ آئینِ پاکستان کے مطابق گورنر کا کردار زیادہ تر علامتی اور دستوری تقاضوں تک محدود ہوتا ہے، جبکہ اصل انتظامی طاقت وزیرِ اعلیٰ کے پاس ہوتی ہے۔ مگر خیبرپختونخوا میں یہ توازن بگڑ چکا ہے۔ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے فیصل کریم کنڈی بطور گورنر وفاق کے نمائندے کے طور پر صوبے میں ایک ایسے وزیرِ اعلیٰ کے ساتھ کام کر رہے ہیں جو تحریک انصاف کے سخت گیر اور مرکز مخالف حلقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں کے درمیان جاری سیاسی مخاصمت اب ایک ذاتی لڑائی میں بدل چکی ہے۔ فیصل کریم کنڈی کی تقرری کے بعد سے ہی وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے انھیں کبھی گورنر تسلیم نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ جب بھی گورنر خیبرپختونخوا کی جانب سے صوبائی امور بارے کوئی فیصلہ سامنے آتا ہے تو گنڈاپور اس میں ٹانگ اڑانا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں۔

حالیہ دنوں خیبر پختونخوا حکومت اور گورنر کے درمیان جاری اختلافات میں اس وقت شدت آ گئی جب گورنر فیصل کریم کنڈی نے صوبائی حکومت کی مخالفت کے باوجود قدیمی تاریخی ایڈورڈز کالج پشاور کے پرنسپل کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جس پر گنڈاپور سرکار کہاں خاموش رہنے والی تھی، گورنر کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری ہونے کی دیر تھی کہ صوبائی حکومت نے نہ صرف کالج کو اپنی تحویل میں لینے کی سمری منظور کر لی بلکہ صوبائی کابینہ نے کالج کے معاملات میں گورنر کے اختیارات ختم کر کے تمام انتظامی معاملات وزیراعلیٰ کو منتقل کر دیئے ہیں۔

صدر ٹرمپ کے امن منصوبے پر عمران خان کچھ بولتے کیوں نہیں؟

دوسری جانب گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی کا ایڈورڈز کالج کے بورڈ آف گورنرزکے چیئرمین کی حیثیت سے اپنے آئینی کردار کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انھوں نے ڈاکٹر یعقوب بنگش کو مستقل پرنسپل تعینات کرنے کا فیصلہ مکمل طور پر قانون اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کیا ہے انھوں نے بتایا کہ گورنر سیکرٹریٹ نے 29 ستمبر 2025 کو ڈاکٹر بنگش کی بطور پرنسپل تعیناتی کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کیا ہے یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا ہے جب بورڈ آف گورنرز نے 30 اپریل کو متفقہ طور پر ادارے میں طویل عرصے سے جاری انتظامی خلا کو ختم کرنے کے لیے مستقل پرنسپل تعینات کرنے کی منظوری دی تھی۔گورنر کنڈی نے کہاکہ بورڈ ہی ایڈورڈز کالج چلانے کا واحد مجاز ادارہ ہے اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس کو واضح الفاظ میں تسلیم کیا ہے۔”انہوں نے صوبائی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ گنڈاپور حکومت نے نہ تو سپریم کورٹ کے احکامات کی توقیر کی ہے اور نہ ہی بورڈ کے فیصلے کا احترام کیا ہے۔ ایڈورڈز کالج کے معاملات میں گورنر کے اختیارات ختم کرکے وزیراعلیٰ کو دینے کے صوبائی کابینہ کے فیصلے بارے گورنر کنڈی کا کہنا تھا کہ یہ اقدام نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ ادارے کے تاریخی تشخص کے بھی منافی ہے۔کوئی بھی صوبائی کابینہ سپریم کورٹ آف پاکستان یا بورڈ آف گورنرز کے قانونی اختیار کو ختم نہیں کر سکتی کیونکہ ایڈورڈز کالج ہمیشہ چرچ مشن سوسائٹی کے تحت ایک آزاد ادارہ رہا ہے، جس کے بورڈ آف گورنرز کا چیئرمین گورنر ہوتا ہے۔

تاہم بشپ آف پشاور نے قرار دیا ہے کہ ایڈورڈ کالج کی اصل سرپرست چرچ مشن سوسائٹی ہے،گورنر اور وزیراعلیٰ ایڈورڈز کالج پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے آپس میں برسرپیکار ہیں لیکن ہم کالج کے موجودہ ڈھانچے میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کو قبول نہیں کریں گے،ان کا مزید کہنا تھا کہ گورنر اور صوبائی حکومت کے مابین جاری کشمکش کا براہ راست اثر کالج کے تعلیمی معیار پر پڑ رہا ہے اور حالیہ امتحانات کے نتائج نے ادارے کی خراب صورت حال کو بے نقاب کر دیا ہے۔

ناقدین کے مطابق گورنر اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے مابین جاری چپقلش نے صوبے میں انتظامی جمود پیدا کر رکھا ہے۔ دونوں کے مابین جاری تنازع دراصل بیانیے کی جنگ ہے، جس میں دونوں فریق اپنے اپنے ووٹر کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گنڈاپور اپنی عوامی مقبولیت کو برقرار رکھنے کے لیے مرکز کو ’’دشمن‘‘ اور خود کو ’’صوبے کا محافظ‘‘ بنا کر پیش کررہے ہیں جبکہ کنڈی وفاق کے مفادات کی نمائندگی کرتے ہوئے خود کو ’’آئینی قوت‘‘ کے محافظ کے طور پر دکھاتے ہیں۔یہ بیانیاتی تقسیم دراصل سیاسی فائدے کا کھیل ہے، جس میں نقصان صرف اداروں اور عوامی مفادات کا ہو رہا ہے۔

 

Back to top button