پابندی کا شکار TLP اکیلی رہ گئی، کسی جماعت نے ساتھ نہ دیا

وفاقی حکومت کی جانب سے شر پسندی میں ملوث تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد ہونے کے بعد کوئی بھی مذہبی جماعت اسکے ساتھ کھڑی نہیں ہوئی چنانچہ اب ٹی ایل پی مکمل تنہائی کا شکار ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ تحریک لبیک کے آئیسولیٹ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے مرکزی امیر سعد حسین رضوی اپنے چھوٹے بھائی انس رضوی کے ساتھ مفرور ہیں۔ یاد رہے دونوں بھائیوں کے خلاف پولیس اہلکاروں کے قتل کی ایف آئی آر درج ہو چکی ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
خیال رہے کہ جب عمران خان کے دور حکومت میں تحریک لبیک پر پابندی عائد کی گئی تھی تو ملک کی اکثر بڑی مذہبی جماعتیں اس کے ساتھ کھڑی ہو گئی تھیں جس کے نتیجے میں حکومت کو پابندی اٹھانا پڑ گئی تھی۔ لیکن 2021 میں لگنے والی پہلی پابندی کے برعکس اس مرتبہ نہ کوئی بڑی مذہبی تنظیم اور نہ ہی کوئی سیاسی جماعت تحریک لبیک کے حق میں سامنے آئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وزیر داخلہ محسن نقوی نے تحریک لبیک پر پابندی عائد ہونے سے پہلے ملک کی تمام بڑی مذہبی سیاسی جماعتوں کی قیادت سے ملاقاتیں کیں اور انہیں تحریک لبیک پر پابندی لگانے کی وجوہات سے آگاہ کیا تھا۔ اسی وجہ سے کسی بھی مذہبی سیاسی جماعت نے اس فیصلے کی مخالفت نہیں کی۔
وزارتِ داخلہ نے باضابطہ طور پر ٹی ایل پی پر پابندی لگانے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے جو پنجاب حکومت کی سفارش اور وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد نافذ کیا گیا۔ پابندی کے حکمنامے کے تحت ٹی ایل پی کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت کالعدم تنظیم قرار دے کر فرسٹ شیڈیول میں شامل کر دیا گیا ہے۔ اس حکم نامے کے باوجود تحریک لبیک کو اختیار ہے کہ وہ 30 دن کے اندر وزارتِ قانون و انصاف اور وزارتِ داخلہ کے افسران پر مشتمل نظرثانی کمیٹی میں اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرے۔
تحریک لبیک پر پابندی عائد کرنے سے پہلے حکومت پنجاب نے مذہبی جماعت کے زیر انتظام چلنے والی 200 سے زائد مساجد کو تحویل میں لے کر محکمہ اوقاف کے حوالے کر دیا ہے۔ ان میں چوبرجی لاہور میں واقعہ مسجد رحمت اللعالمین بھی شامل ہے جسے تحریک لبیک کے مرکزی ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ تاہم اس حکومتی فیصلے کے خلاف بھی ملک کی کسی بھی بڑی دینی اور سیاسی جماعت نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ ٹی ایل پی کی قیادت ان مساجد کو اپنا شدت پسند بیانیہ آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہی تھی۔ قومی ادارہ برائے انسدادِ دہشت گردی یعنی نیکٹا نے ملک کے تمام صوبوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، بینکنگ سیکٹر، الیکشن کمیشن اور دیگر متعلقہ اداروں کو ہدایت جاری کی ہیں کہ کالعدم تنظیموں سے متعلق تمام پابندیوں پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ ان اقدامات میں جماعتی دفاتر کو سیل کرنا، تشہیری مواد یعنی کتب، پمفلٹ، بینرز، ڈیجیٹل مواد وغیرہ پر پابندی، پریس کانفرنسز اور بیانات پر قدغن، مالی امداد کی روک تھام، اور سیاسی و سماجی سرگرمیوں پر پابندیاں شامل ہیں۔
دوسری جانب وزیرِ اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ ٹی ایل پی دراصل مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک میں نقب لگانے کے لیے بنائی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں یہ جماعت اسی مقصد کے لیے استعمال ہوئی، مگر موجودہ حکومتی اقدام کا اس پس منظر سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کے بقول، جماعت کے تحلیل یا بحالی سے متعلق حتمی فیصلہ وفاقی کابینہ کے دائرہ اختیار میں ہے۔
پابندی عائد ہونے کے بعد ٹی ایل پی تیسری مذہبی و سیاسی جماعت بن گئی ہے جسے کالعدم قرار دیا گیا ہے، یہ بریلوی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والی پہلی مذہبی جماعت ہے جس پر دو بار پابندی لگی۔ پہلی بار 2021 میں پی ٹی آئی حکومت نے اس پر پابندی عائد کی تھی جو کہ تشدد کا راستہ ترک کرنے کے وعدے کے بعد اٹھا لی گئی تھی۔
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ تحریک لبیک دراصل جنرل فیض حمید کی نرسری میں پروان چڑھی جس کا مقصد نواز لیگ کا ووٹ بینک توڑنا تھا۔ لیکن انکے مطابق جب وقت بدلا اور فیض حمید اپنے لیڈر عمران خان سمیت جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلا گیا تو اس کی باقیات کا خاتمہ بھی ضروری ہو گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ویسے بھی جب ایک مرتبہ تحریری یقین دہانیوں کے بعد تحریک لبیک سے پابندی اٹھا لی گئی تھی تو دوسری مرتبہ اس کی کسی یقین دہانی پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے مطابق، انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت پابندی کے بعد کسی سیاسی جماعت کے لیے انتخابات میں حصہ لینا یا سیاسی طور پر متحرک رہنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ سال 2002 میں اسی قانون کے تحت سپاہ صحابہ پاکستان اور تحریک جعفریہ پاکستان پر بھی پابندی لگائی گئی تھی، تاہم دونوں جماعتوں کے سیاسی و مذہبی حلقوں میں ہمدرد موجود تھے۔
ٹی جے پی متحدہ مجلسِ عمل اور ملی یکجہتی کونسل میں شامل رہی، جبکہ ایس ایس پی سے تعلق رکھنے والے بعض رہنما قومی اسمبلی تک پہنچے۔ چنانچہ مذہبی جماعتوں کے دباؤ پر ان دونوں جماعتوں سے پابندی اٹھا لی گئی تھی۔ اس کے برعکس، اس بار کسی بڑے مذہبی طبقے یا سیاسی جماعت نے ٹی ایل پی کے حق میں آواز نہیں اٹھائی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر تنظیمیں سمجھتی ہیں کہ ٹی ایل پی ایک پر تشدد جماعت بن چکی تھی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پابندی عائد ہونے کے بعد تحریک لبیک سے وابستہ ذیادہ تر کارکن اب واپس اُن جماعتوں میں شامل ہو جائیں گے جن سے وہ 2015ء سے پہلے تعلق رکھتے تھے۔
یاد رہے کہ ماضی میں ٹی ایل پی کی قیادت کا سنی اتحاد کونسل سے کافی تعلق رہا ہے۔ جماعت کے بانی مرحوم علامہ خادم حسین رضوی نے 2015ء میں ختمِ نبوت کے معاملے پر یہ تنظیم قائم کی تھی۔ لیکن اب تحریک انصاف سے ہمدردیاں رکھنے والے سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا کا کہنا ہے کہ بریلوی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے کسی بھی پلیٹ فارم پر تشدد کی سیاست کی ہمیشہ مخالفت کی گئی ہے، کیونکہ یہ طرزِ عمل فائدے سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ ماضی میں مفتی منیب الرحمن نے تحریک لبیک پر پابندی عائد ہونے کے بعد اس کا ساتھ دیا تھا لیکن اس بار انہوں نے بھی خاموشی اختیار کر لی ہے۔
ادھر موجودہ حکومت پرعزم ہے کہ وہ پولیس اہلکاروں کے قتل میں ملوث تحریک لبیک کے امیر اور انکے دیگر ساتھیوں کو کیفر کردار تک پہنچائے گی، لیکن ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ فرقہ وارانہ گروہوں کے سرکردہ رہنما آج تک اپنے جرائم کی سزا نہیں پا سکے۔ مشرف دور سے لے کر آج تک کالعدم تنظیموں پر پابندیاں تو لگتی رہیں، مگر ان کے رہنماؤں اور سرگرم کارکنوں کے خلاف کیسز کو سنجیدگی سے آگے نہیں بڑھایا گیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب تک مذہبی انتہا پسند جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف قانونی کارروائی نہیں ہوتی، محض پابندیوں سے کوئی دیرپا نتیجہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
ریاست نے آج تحریک لبیک پر پابندی عائد کی ہے، لیکن اگر اس سے وابستہ قانون شکن عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں نہ لایا گیا، تو یہ جماعت کل کو کسی نئے نام اور شاید پہلے سے بھی زیادہ شدت پسند روپ میں دوبارہ سامنے آسکتی ہے۔
