ٹرمپ کی امن انعام کیلیے نامزدگی پاکستان کے گلے کی ہڈی کیسے بنی ؟

ایران پر امریکی حملوں کے بعد پاکستان کی فوجی اور سویلین قیادت کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امن کے نوبیل پرائز کے لیے نامزدگی وہ چھپکلی بن چکی ہے جسے نہ تو نگلا جا سکتا ہے اور نہ ہی اگلا جا سکتا ہے۔ پہلے اگر صدر ٹرمپ کی نامزدگی متنازعہ تھی تو ایران پر امریکی حملوں کے بعد تو یہ ویسے ہی ناقابل قبول ہو گئی ہے۔ ایسے میں دیکھنا یہ ہے کہ اب حکومت پاکستان کیا کرتی ہے؟

روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں سینئیر صحافی انصار عباسی کہتے ہیں کہ تہران اور واشنگٹن کے جوہری مذاکرات کے دوران ایران پر اچانک ہونے والے اسرائیلی حملے تو ایک دھوکہ تھے ہی لیکن امریکی صدر ٹرمپ نے بھی ایران کے حوالے سے پاکستان اور پوری دنیا کو یہ کہہ کر دھوکہ دیا کہ وہ حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے 15 روز انتظار کریں گے۔ تاہم اس اعلان کے 24 گھنٹے بعد ہی امریکہ نے ایرانی نیوکلیئر تنصیبات پر حملے کرتے ہوئے انہیں تباہ کر دیا۔

ایسے میں سوال یہ ہے کہ جب ایک طاقتور سپر پاور کا سربراہ مملکت ہی وعدہ خلافی کرتے ہوئے دنیا کو دھوکہ دینے پر اتر آئے تو اس ملک کی اپنی ساکھ کیا رہ جائے گی۔ انصار عباسی کہتے ہیں کہ امریکہ نے ایک بار پھر اسرائیل کے لیے دنیا کو دغا دیتے ہوئے بین الاقوامی امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ امریکہ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ اسرائیل کی اسلامی دنیا مخالف دہشت گردی میں اُس کے ساتھ ہے۔ یہ بھی ثابت ہو گیا کہ امریکہ خود ایک دہشت گرد ریاست ہے جسے نہ کسی قانون کا پاس ہے اور نہ کسی اخلاقیات کا۔ ثابت ہو گیا کہ یقیناً یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں۔

انصار عباسی کہتے ہیں کہ امریکہ نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ تہران کی ایٹمی صلاحیت کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اس خبر نے پاکستان سمیت پوری دنیا میں ہلچل مچا دی۔ دراصل صدر ٹرمپ نے پاکستان اور یورپین ممالک کو دھوکہ دیا۔ ان کی جانب سے تو کہا گیا تھا کہ ٹرمپ دو ہفتوں تک انتظار کریں گے اور بات چیت سے راستہ نکالنے کو ترجیح دی جائیگی۔ کچھ ممالک ایران اور اسرائیل کے مابین جنگ روکنے کیلئے بات چیت بھی کر رہے تھے۔ امریکہ نے پاکستان کو بھی یہی لارا لگایا کہ آپ پر امن طریقے سے اس جنگ کو روکنے کی کوشش کریں۔ پاکستان ترکی کیساتھ مل کر اس حوالے سے پس پردہ کردار بھی ادا کر رہا تھا، لیکن اس سب کے دوران اچانک امریکہ نے ایران پر حملہ کر دیا۔ جواب میں ایران نے اسرائیل پر مزید میزائل داغے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکہ کو بھی ان حملوں کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔

انصار عباسی کے بقول ایران نے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ اُس کے ایٹمی پروگرام کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچا کیوں کہ ایٹمی مواد کو حملے سے پہلے ہی کسی دوسری جگہ منتقل کیا جا چکا تھا۔ متعلقہ عالمی اداروں نے بھی یہ کنفرم کیا ہے کہ امریکی حملوں سے تابکاری کے کوئی اثرات ظاہر نہیں ہوئے۔ گویایہ تو ابھی کنفرم ہونا باقی ہے کہ کیا امریکہ اس حملے میں اپنا مقصد حا صل کرنے میں کامیاب ہوا یا ناکام، لیکن ایران پر ہونے والے امریکی حملوں نے پوری دنیا کے لیے نئے خطرات پیدا کر دیےہیں۔

ایران پر امریکی حملوں کے فوری بعد پاکستان میں سب بڑا سوال یہ ہے کہ اب ہم ٹرمپ کے لیے نوبیل امن انعام کی نامزدگی کا کیا کریں۔ پاکستان اس معاملے پر بری طرح پھنس گیا ہے۔ اس سے پہلے ٹرمپ پاکستان کی محبت میں بہت آگے تک جاتا ہوا نظر آیا اور دونوں ممالک کے تعلقات میں بہت بڑی تبدیلی کے اشارے ملنے لگے۔ ایک طرف ٹرمپ پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستان کے حق میں بار بار بولتا اور بھارت کو چڑاتا دکھائی دیا۔ اسکے بعد موصوف نے ہمارے فیلڈ مارشل عاصم منیر کو وائٹ ہائوس میں کھانے پر بھی بلا لیا۔ امریکی وزیر خارجہ نے وزیراعظم پاکستان کو فون کیا اور اس کی ایران اسرائیل جنگ کے پرامن حل کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کی۔ اس ماحول میں حکومت پاکستان نے اچانک ٹرمپ کو امن کے نوبیل پرائز کیلئے نامزد کر دیا۔ اس فیصلے کو کسی نے ماسٹر سٹروک قرار دیا تو کسی نے بونگی گردانا۔

9 مئی مقدمات: عمران خان کی ضمانت کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ

لیکن انصار عباسی بتاتے ہیں کہ اس معاملے پر سب سے بہترین تجزیہ خواجہ سعد رفیق کی طرف سے آیا۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ ’’ہم لوگ جس کو چارہ ڈال رہے ہیں، وہ اس کھائے گا بھی اور دولتی بھی مارے گاـ‘‘۔ اور یقیناً ٹرمپ نے ایسا ہی کیا۔ موصوف نے امن کے نوبیل پرائز کیلئے نامزدگی کا چارہ بھی کھا لیا اور پھر دولتی بھی مار دی۔ یہ صورتحال پاکستان کیلئے بڑی مشکل ہے۔ پاکستان کی کوشش تھی کہ ٹرمپ کو امن کے نوبیل پرائز کا چارہ ڈال ایران اسرائیل جنگ کو رکوانے کا راستہ نکال لیا جائے لیکن ٹرمپ نے اسکے برعکس واردات ڈال دی۔ اب ٹرمپ کے لیے نوبیل امن انعام کی سفارش کرنے والے پاکستان نے ایرانی نیوکلیئر تنصیبات پر امریکی حملے کی سخت مذمت کر دی ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے کہا گیا کہ ایران پر امریکی حملہ دراصل اسرائیلی حملوں کا تسلسل ہے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

لیکن انصار عباسی کہتے ہیں کہ معاملہ اب رہ گیا صدر ٹرمپ کیلئے پاکستان کی طرف سے امن کے نوبیل پرائز کی نامزدگی کا۔ پہلے اگر یہ نامزدگی متنازعہ تھی تو اب تو ناقابل قبول ہو چکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت پاکستان کیا کرتی ہے، جس کے لیے یہ نامزدگی اب ایک چھپکلی بن چکی ہے جسے نہ نگلا جا سکتا ہے اور نہ ہی اگلا جا سکتا ہے۔

Back to top button