تحریک طالبان کی قیادت میں اختلافات کیوں پیدا ہو گئے؟

سیکیورٹی اداروں کی مربوط کارروائیوں کے بعد ہر محاذ پر شکست فاش سے دوچار تحریک طالبان کے مابین اندرونی اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں اور انھوں نے کتوں کی طرح آپس میں لڑنا شروع کر دیا ہے۔ ایک ہی پرچم تلے متحد ہو کر پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف دہشتگرد ایک دوسری پر الزام تراشیاں کرتے ہوئے باہم صف آرا دکھائی دیتے ہیں۔ ٹی ٹی پی میں طاقت، وسائل اور حکمرانی کے معاملات پر اختلافات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ تحریک طالبان کے مزید ٹکڑوں میں بٹنا یقینی نظر آ رہا ہے۔
مبصرین کے مطابق افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد دہشتگرد گروہ کے مختلف دھڑوں کو لگتا تھا کہ اب انہیں افغان حکومت کی جانب سے سہارا ملے گا، لیکن اقتدار اور مراعات کی غیر منصفانہ تقسیم نے مختلف دھڑوں کے مابین دراڑیں مزید گہری کر دی ہیں جبکہ دوسری جانب پاکستان میں بھی ٹی ٹی پی کو سیکیورٹی اداروں کے سخت ردعمل کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ناکامیوں سے دوچار ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں نے ایک دوسرے پر ناکامیوں کا الزام لگانا شروع کر دیا ہے۔ سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی دھڑوں کے درمیان اس چپقلش نے تنظیم کو وقتی طور پر کمزور ضرور کیا ہے، تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پاکستان کیلئے خطرہ ختم ہو گیا ہے کیونکہ انتشار اور عدم اتفاق سے دوچار ان دہشتگرد گروپوں کے مابین غیر متوقع اور بےقابو کارروائیوں کا امکان بڑھ گیا ہے۔
سیکیورٹی ماہرین کے بقول جب ٹی ٹی پی جیسے دہشتگرد ٹولےٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں تو اس کی قیادت شرپسندوں پر اپنی گرفت کھو بیٹھتی ہے، نتیجتاً چھوٹے کمانڈر اپنے طور پر کارروائیاں شروع کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اب ٹی ٹی پی کے مابین باہمی اختلافات کی وجہ سے بڑے حملوں کی صلاحیت متاثر ہونے کے باوجود چھوٹے اور اچانک حملوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحدی صورتحال پہلے ہی کشیدگی کا شکار ہے،ایسے میں تحریک طالبان کی اندرونی خانہ جنگی اس تناؤ کو مزید بھڑکا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ داعش جیسے دیگر گروہ بھی اس خلا سے فائدہ اٹھا کر اپنی موجودگی کو مضبوط کر سکتے ہیں۔ سیکیورٹی ماہرین کا ماننا ہے کہ موجدہ صورتحال میں تحریک طالبان پر قابو پانے کیلئے فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ جامع حکمتِ عملی پر عملدرآمد ناگزیر ہے۔ انٹیلی جنس تعاون، ہدفی کارروائیاں، افغان حکومت کے ساتھ مسلسل رابطہ، اور مقامی سطح پر سماجی و معاشی اصلاحات ہی وہ اقدامات ہیں جن کے ذریعے دہشت گردی کے خطرے کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔ بصورت دیگر طالبان کا اندرونی انتشار وقتی کمزوری کے باوجودپاکستان کیلئے مستقبل میں زیادہ غیر متوقع اور مہلک خطرات پیدا کر سکتا ہے۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق گزشتہ تین ماہ کے دوران تحریک طالبان کے متعدد اہم کمانڈر سرحد عبور کرتے ہوئے ہلاک ہوچکے ہیں، جس کے بعد تحریک طالبان کی موجودہ قیادت سخت تذبذب اور اندرونی بے چینی کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس دباؤ نے قیادت کو سخت احکامات جاری کرنے پر مجبور کر دیا ہے جہاں ایک طرف ٹی ٹی پی قیادت نے اپنے کارندوں کو موبائل فون کے استعمال سے باز رہنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں وہیں دوسری جانب عسکریت پسندوں کو مساجد، عوامی حجروں اور مقامی آبادی میں رہائش پذیر غیرقانونی مہاجرین کے مکانات کو اپنے چھپنے اور کارروائی کی تیاری کے لیے استعمال کرنے احکامات دے دئیے ہیں تاکہ سیکیورٹی فورسزکی کسی بھی قسم کی کاروائی کی صورت میں شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جا سکے اورکسی بھی ممکنہ نقصان کی صورت میں آسانی سے عوام کو نشانہ بنانے کا جھوٹا بیانیہ بنایا جا سکے۔
دوسری جانب سیکیورٹی فورسز پاکستان میں شرپسندانہ کارروائیوں میں مصروف عمل دہشتگرد عناصر اور ان کے سہولت کاروں کے خاتمے کے لیے پوری طرح تیار اور پرعزم ہیں۔ تاہم سیکورٹی ماہرین کا اصرار ہے کہ پاکستان سے دہشتگردی کے مکمل خاتمے کیلےصرف عسکری کاروائیاں کافی نہیں بلکہ انٹیلی جنس شیئرنگ اور مقامی کمیونٹی انگیجمنٹ سے ہی عسکریت پسندی کا جڑ سے خاتمہ ممکن ہے۔ ماہرین کے مطابق تحریک طالبان کے دہشتگردوں کا اندرونی انتشار نہ صرف اس گروہ کو کمزور کر رہا ہے بلکہ ایک ایسا خلاء بھی پیدا کر رہا ہے جسے دوسرے انتہاپسند عناصر بھر سکتے ہیں۔ لہٰذا بروقت، مربوط اور جامع حکمتِ عملی کے بغیر اس انتشار کے منفی اور غیر متوقع نتائج سے نمٹنا مشکل ہوگا۔
