عمران آرمی چیف کے حوالے سے کیا فیصلہ کرنے جا رہے ہیں؟

اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے آرمی چیف کی بارے کسی چونکا دینے والے فیصلے کا راستہ روکنے کے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس میں فیصلہ خفیہ راۓ شماری کی بنیاد پر ہوگا جبکہ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں شو آف ہینڈ کرنا پڑتا ہے۔
سنیئر صحافی نصرت جاوید اپنے تازہ سیاسی تجزیئے میں کہتے ہیں کہ شریف اور بھٹو خاندان کے مابین پانچ فروری کو ہونے والی لاہور ملاقات کے بعد اندر کی خبر رکھنے والے عندیہ دے رہے ہیں کہ عمران خان کو نکالنے کے منصوبے پر عملدرآمد کرتے ہوئے پہلے مرحلے میں قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی۔ لیکن انکا کہنا یے کہ ایسا کرنا ایک لاحاصل مشق ہو گی کیونکہ ایسی تحریک کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔
انکا کہنا یے کہ اسد قیصر کئی مہینوں سے اپنے منصب سے وابستہ غیر جانب داری کے تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے عمران حکومت کو اپنی ترجیح کے قوانین سرعت سے منظور کروانے میں سہولت کاری کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
نہایت تجربہ کار سیاست دانوں کے ہوتے ہوئے بھی قومی اسمبلی میں بھاری بھر کم تعداد میں موجود اپوزیشن جماعتیں کامل بے بسی سے ان کے ہاتھوں سو پیاز اور سو جوتے کھاتی چلی جا رہی ہیں۔
ابھی کل کی بات ہے کہ اپوزیشن قیادت یہ بڑھکیں لگا رہی تھی کہ وہ حکومت سے ناراض اراکین کے تعاون سے منی بجٹ کو منظور ہونے سے روک لے گی لیکن بالآخر بجٹ منظور ہوگیا۔ انکا کہنا ہے کہ سیاست میں وقت کا تعین ہی اہم ترین ہوتا ہے۔
شہباز شریف حکومت کیخلاف ان ہائوس تبدیلی کیلئے متحرک
اپوزیشن جماعتوں کو اگر واقعتاً حکمران جماعت میں ابھرتی ہوئی بغاوت کا یقین تھا تو بہتر یہی ہوتا کہ سپیکر اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرتے ہوئے اس کی حرارت کو دنیا کے سامنے آشکار کر دیا جاتا۔ تب اگر خفیہ رائے شماری کی بدولت اسد قیصر اگر اپنے منصب سے محروم ہو جاتے تو عمران حکومت منی بجٹ کو قومی اسمبلی سے منظور کروانے سے قبل سو بارسوچتی مگر اپوزیشن بروقت پیش قدمی نہ کر پائی۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ 1988 سے کئی بار حکومتوں میں رہنے والی اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں بھی بنیادی طور پر حکمران اشرافیہ کا حصہ ہیں۔ انہیں آئی ایم ایف کے جاہ وجلال کا بخوبی اندازہ ہے، یہی وجہ ہے کہ حکومت نے منی بجٹ بآسانی منظور کروا لیا۔
سٹیٹ بینک کو خودمختاری فراہم کرنے والے قانون کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا۔ ان دو قوانین کی بآسانی منظوری کے بعد اپوزیشن کو جس خفت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس کے ازالے کے لئے اب دوبارہ متحد ہونے اور اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا سوانگ رچارہے ہیں۔
اسلام آباد کے باخبر حلقے مگر دعویٰ کر رہے ہیں کہ اگلے دو ہفتے بہت اہم ہیں۔ شاید ان کے دوران یا اس ماہ کے اختتام یا اگلے ماہ کے آغاز میں وزیر اعظم آرمی چیف سے متعلق کسی چونکا دینے والے فیصلے کا اعلان کر دیں گے۔ بقول نصرت، سپیکر اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرتے ہوئے اپوزیشن ایک بار پھر متحد ہو جانے کا جو پیغام دے گی وہ درحقیقت عمران خان کو آرمی چیف سے متعلق فیصلے کا اعلان کرنے سے روکنے کے کام آ سکتا ہے۔
یہ دراصل حکمران اشرافیہ کے مابین لگی ایک اور بازی ہے جس کے لئے بچھائی بساط کا عام پاکستانیوں کی حقیقی مشکلات سے کوئی لینا دینا نہیں اور ایک بہت ہی پرانی فلم کی کہانی نئے اداکاروں کے ساتھ دہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔