اگلا وزیراعظم کون ہوگا اور نئی حکومت کتنا عرصہ چلے گی؟

پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے ایک بار پھر ہاتھ ملاتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھجوانے کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایسا ہو بھی جائے تو بعد کے سیاسی منظر نامے کے حوالے سے دونوں اپوزیشن جماعتوں کے مابین اب تک اتفاق رائے نہیں ہو پایا۔

باخبر اپوزیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی ابھی تک اس حوالے سے متفق نہیں ہو پائیں کہ اگر بالفرض کپتان کی چھٹی ہو بھی گئی تو نئے سیٹ اپ میں کس جماعت کو کیا کردار ملے گا؟ عبوری وزیرا عظم کون ہوگا؟ پنجاب کس کو ملے گا؟ سوال یہ بھی ہے کہ عبوری سیٹ اپ چند مہینوں کے لیے ہوگا یا پھر موجودہ اسمبلیوں کو اپنی معیاد پوری کرنے کا موقع دیا جائے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب عمران کو نکالنے کا عزم کرنے والی جماعتوں کی قیادت کے پاس بھی نہیں ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کا خیال ہے کہ اگر پہلے مرحلے میں اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف خفیہ رائے شماری کی بنیاد پر ہونے والے ووٹنگ میں انکی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو دوسرے مرحلے میں عمران خان کی چھٹی کروانا زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔ اپوزیشن حلقوں کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے میں کپتان کی اتحادی جماعتیں بھی اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف خفیہ طور پر ووٹ دے سکتی ہیں۔ یوں اگر سپیکر آؤٹ ہوگیا تو دوسرے مرحلے میں حکومت کی اتحادی جماعتوں کے اراکین بھی کھل کر سامنے آ سکتے ہیں چونکہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں شو آف ہینڈ کا طریقہ اپنایا جاتا ہے۔

لیکن بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر اپوزیشن عمران کو نکالنے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو آئین کے تحت اسے متبادل حکومت بھی مہیا کرنا ہو گی۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد گیند صدر عارف علوی کی کورٹ میں ہوگی جن کو دوسری بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کو حکومت بنانے کی دعوت دینا ہو گی۔ ایسی صورت میں میں سوال یہ ہو گا کہ کیا نواز شریف بدترین معاشی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں گے کیونکہ اتنے تھوڑے عرصے میں تباہ شدہ معیشت کو بحال کرنا ممکن نہیں ہوگا اور کپتان کی ناکامیوں کا مدعا نواز لیگ کے کھاتے میں پڑنے کا امکان ہوگا۔

سینئر صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ شاید نواز لیگ عمران کی چھٹی کے بعد پیپلز پارٹی کو وزارت عظمی آفر کر دے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اتنی بدحال معیشت کو اگر نواز لیگ سنبھالنے کو تیار نہیں تو پیپلزپارٹی یہ رسک کیوں کے گی۔ سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس کشمکش میں اگر ایک نیا بحران پیدا ہو جائے تو وزیراعظم صدر کو پارلیمنٹ تحلیل کرنے کا مشورہ دے سکتا ہے جس کے بعد نئے انتخابات کرانے ہوں گے۔ یہ صورتحال نواز لیگ کے لئے قابل قبول ہوگی کیونکہ نواز شریف کا شروع سے یہ موقف رہا ہے کہ موجودہ سیٹ اپ ختم کر کے نئے اور شفاف الیکشن کروائے جائیں۔

سیاسی مبصرین کے خیال میں عمران خان کے لیے فی الحال ایک ہی بڑا خطرہ یہ ہے کہ ان کے 22 اراکین قومی اسمبلی جنکی اکثریت پنجاب سے ہے، اڑان بھرنے کے لیے سیٹ بیلٹ باندھ چکے ہیں۔ ان اراکین کے لئے مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے حلقوں میں نہیں جا پا رہے اور اگلا الیکشن پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر نہ لڑنے کا سوچ رہے ہیں۔ اگر حالات ایسے ہی رہے تو خفیہ بیلٹ میں ان کے اپنے ارکان اسمبلی کو سنبھالنا ان کے لیے انتہائی مشکل ہو گا، ایسے میں یوسف رضا گیلانی نے جو جھٹکا عمران خان کو ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی شکست کی صورت میں دیا تھا، اسد قیصر بھی اسی جھٹکے کا نیا شکار بن سکتے ہیں جس کے بعد عمران کی وزارت عظمیٰ بھی اپوزیشن کے نئے اکٹھ کے وار سے کچھ ہی دور ہو گی۔

واضح رہے کہ لاہور میں ہونے والی ہنگامہ خیز سیاسی ملاقاتوں اور اپوزیشن کے حکومتی اتحادیوں سے رابطوں نے ملکی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فیصلہ کن سیاسی معرکہ شروع ہو گیا ہے۔ 7 فروری کو لاہور میں مسلم لیگ ن کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اہم اجلاس میں موجودہ حکومت کے خاتمے کے لیے تمام اقدامات پر اتفاق کیا گیا تو دوسری طرف حکومت کی جانب سے رابطہ عوام مہم کے تحت سیاسی جلسوں کے اعلان نے ملک میں انتخابی ماحول پیدا کر دیا ہے۔ 7 فروری کو ہی لاہور میں اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری نے پی ٹی آئی حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے رہنماؤں سے عشائیے پر ملاقات کی ہے۔

بلوچستان حملوں کے میڈیا بلیک آؤٹ سے فائدہ ہوا یا نقصان؟

ان ملاقاتوں نے سیاسی درجہ حرارت اچانک اتنا بڑھا دیا ہے کہ عمران کو دورۂ چین میں ہی اپنے ساتھیوں کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھنا پڑ گیا اور وطن واپسی پر انہوں نے عوامی رابطے اور جلسے جلوس کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مبصرین کے خیال میں‎ن لیگ عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو رخصت کروا کر تین سے چھ ماہ کے اندر نئے انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے۔ انہیں اس بات کا بھی بخوبی اندازہ ہے کہ عمران کو پیپلز پارٹی کی مدد کے بغیر گھر بھجوانا ممکن نہیں ہے۔ ‎لیکن پیپلز پارٹی اپنے پتے کمال ہوشیاری سے کھیل رہی ہے۔ اسے اندازہ ہے کہ عمران کی

رخصتی کے بعد سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھے گا، ملکی معیشت اور بگڑے گی اور اگلا بجٹ پیش کرنا کسی بھی جماعت کے لیے سیاسی خودکشی کے مترادف ہو گا۔ باالفاظ دیگر اگر پیپلز پارٹی ن لیگ کی خواہش کے مطابق وزارت عظمیٰ محض چند ماہ کے لیے قبول کر بھی لیتی ہے تو یہ انتخابات سے پہلے انتہائی گھاٹے کا سودا ہوگا۔ ‎اپوزیشن

کی جانب سے عمران کے خلاف کسی بھی ایکشن کی سنجیدگی کے لیے ن لیگ کا اس نقطے پر قائل ہونا ضروری ہے کہ عدم اعتماد کی صورت میں اگر اگلا وزیر اعظم پیپلز پارٹی سے آتا ہے تو موجودہ اسمبلیاں اپنی باقی ماندہ مدت یعنی تقریباً مزید ڈیڑھ سال پوری کریں۔

ن لیگ کے کئی سینیئر رہنما ایسا کرنے کو ایک سنگین غلطی سمجھتے ہیں کیونکہ انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی پیپلز پارٹی کو بھرپور سپورٹ دینا پڑے گی اور ساتھ میں ملکی معاشی پالیسیوں کی مکمل ذمہ داری بھی لینی پڑے گی۔ اس کے علاوہ اگر پیپلز پارٹی ڈیڑھ سال کے لیے اپنا وزیراعظم لے آتی ہے تو عام انتخابات میں پارٹی کو پنجاب میں منظم کرنے اور الیکٹ ایبلز کو شامل کروانے کے لیے بہتر پوزیشن میں آجائے گی۔ لیکن ایسے میں بھلا ن لیگ اپنے ہوم گراؤنڈ میں کیوں ایسا ہونے دے گی۔

سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ن لیگ عدم اعتماد کے بعد اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے پر تیار نہیں تو پیپلز پارٹی صرف تین ماہ کی وزارت عظمی کو اپنے لیے گھاٹے کا سودا سمجھتی ہے۔ پیپلز پارٹی کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں تین ماہ بعد نہ صرف مرکزی بلکہ سندھ حکومت بھی ہاتھ سے چلی جائے گی اور پھر الیکشن مہم میں ن لیگ کا نشانہ پیپلز پارٹی ہی ہو گی۔

کہاں پیپلز پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت بڑا مسئلہ عمران سے نجات حاصل کرنا ہے اور پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی قیادت کا مل بیٹھنا بھی اسی ایجنڈے کے تحت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے میں عمران خان کو نکالنا ضروری ہے جس کے بعد باقی معاملات دیکھے جائیں گے۔ اسی نقطہ نظر کا اظہار نواز لیگ کے حلقے بھی کر رہے ہیں۔

Back to top button