نواز شریف نے زرداری کے خلاف میمو گیٹ سکینڈل میں کونسا گند کیا؟

صدر آصف زرداری کے پہلے دور صدارت میں بطور صدارتی ترجمان خدمات سرانجام دینے والے پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے اپنی تازہ کتاب میں کہا ہے کہ تب کی فوجی قیادت (بشمول آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی اور آئی ایس آئی چیف احمد شجاع پاشا) نے زرداری کے خلاف جھوٹا میمو گیٹ سکینڈل بنا کر نا صرف صدر زرداری کو بلکہ ریاست پاکستان کو بھی نقصان پہنچایا۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے ذیادہ افسوسناک کردار سابق وزیر اعظم نواز شریف کا تھا جو کہ میمو گیٹ سکینڈل میں کالا کوٹ پہن کر فوجی قیادت کیساتھ سپریم کورٹ میں پیش ہو ئے۔ بعد میں میاں صاحب نے تسلیم کیا کہ وہ غلطی پر تھے۔
فرحت اللہ بابر کی تازہ کتاب کا نام ’دی زرداری پریزیڈنسی‘ ہے جسکی تقریبِ رونمائی کراچی میں منعقد ہوئی جہاں کئی ممتاز اہلِ دانش اور سیاسی رہنما شریک ہوئے۔ فرحت اللہ بابر نے کراچی پریس کلب میں منعقدہ ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب کسی شخصیت کی مدح سرائی پر مبنی نہیں ہے بلکہ ایک سیاسی اور تاریخی دستاویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کتاب کا مقصد ’ایک زرداری سب پر بھاری‘ جیسے نعروں کی گونج دہرانا نہیں بلکہ وہ حقائق سامنے لانا ہیں جو اس دور میں قومی تاریخ کا حصہ تو بنے لیکن جنہیں قومی شعور میں مکمل اور متوازن طریقے سے جگہ نہیں دی گئی۔
فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ انہوں نے زرداری دور میں روزمرہ کی بنیاد پر ایک ڈائری تحریر کی، جس میں وہ تمام واقعات، فیصلے، ملاقاتیں، ریاستی کشمکش اور بحران شامل کیے گئے جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اہم موڑ ثابت ہوئے۔ کتاب میں ان تمام مشاہدات کو دس تفصیلی ابواب میں ترتیب دیا گیا ہے، جنہیں مصنف نے ذاتی تاثر سے ہٹ کر ’ایک عینی گواہ‘ کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ کتاب کے نمایاں ترین ابواب میں ’میمو گیٹ سکینڈل‘ سرفہرست ہے جسے مصنف نے ’سیاسی خودکش حملہ‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سازش نہ صرف آصف زرداری کی ذات پر حملہ تھی بلکہ اس نے فوج کو بطور ادارہ بھی نقصان پہنچایا۔
فرحت اللہ بابر کے بقول اس وقت کے قائد حزب اختلاف نواز شریف کا کردار بھی اس ضمن میں نمایاں کیا گیا ہے، جنہوں نے خود کالا کوٹ پہن کرعدالت میں پہنچ کر میمو گیٹ سکینڈل کی تحقیقات کی درخواست دائر کی، یاد رہے کہ بعد میں نواز شریف نے میمو گیٹ کو ایک غلطی کے طور پر تسلیم کیا۔ لیکن فرحت اللہ بابر کے بقول اس غلطی کا خمیازہ صرف صدر زرداری نے ہی نہیں بلکہ پوری ریاست پاکستان نے بھگتا۔
کتاب میں تب کی عدلیہ، خاص طور پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ زرداری حکومت کے تعلقات کی پیچیدگیوں کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہے۔
فرحت اللہ بابر کے مطابق یہ محض قانونی معاملات نہیں تھے، بلکہ ریاستی طاقت کے مختلف مراکز کے درمیان ایک ’غیر اعلانیہ جنگ‘ تھی، جس کے اثرات آج بھی ملکی سیاست میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ امریکی سی آئی اے اہلکار ریمنڈ ڈیوس کیس کا ذکر کرتے ہوئے مصنف نے بتایا کہ اس معاملے پر امریکی سفیر خاصے مضطرب تھے اور انہوں نے صدر زرداری سے ملاقات کی۔ اس موقعے پر وزیر اعظم نے واضح پیغام دیا کہ ’ریاست کے اندر ریاست‘ کا تصور قبول نہیں کیا جا سکتا۔فرحت اللہ بابر نے کہا کہ صدر زرداری نے اس کیس سمیت خارجہ پالیسی کے کئی اہم محاذوں پر خود قیادت کی۔ انہوں نے نہ صرف بھارت کے ساتھ جوہری پالیسی پر واضح موقف اپنایا بلکہ سعودی عرب اور ایران جیسے علاقائی حریفوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی بھی کوشش کی۔ اس خارجہ پالیسی کے بعض پہلوؤں پر سخت ردعمل سامنے آیا، مگر زرداری نے اپنی پوزیشن پر استقامت کا مظاہرہ کیا۔
مصنف نے تسلیم کیا کہ اگرچہ وہ صدر کے قریبی حلقے میں شامل نہیں تھے، تاہم ترجمان کی حیثیت سے انہیں غیرمعمولی حد تک باخبر رکھا جاتا رہا۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدا میں انہیں یقین نہیں تھا کہ آصف زرداری اپنی آئینی مدت پوری کر سکیں گے، لیکن زرداری نے حالات کا سامنا نہایت صبر و تحمل سے کیا۔ فرحت اللہ بابر کے مطابق زرداری اکثر ان سے شکوہ کرتے کہ ’تم بھی مجھے لیڈر نہیں مانتے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ آصف زرداری کو ان گناہوں کی سزا ملی جو انہوں نے کیے ہی نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر زرداری نے انڈیا کو پہلے حملہ نہ کرنے کی پیشکش کی جس کے بعد میں خوف ناک نتائج سامنے آئے۔
ان کے بقول سیاست دانوں کا احتساب شدید اور ریاستی اداروں کا احتساب ناپید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست میں ایک ’چوہے بلی‘ کا کھیل مسلسل جاری رہا، جس کے اثرات سیاست کی شفافیت اور عوامی اعتماد پر پڑے۔