عمران خان جھوٹ پکڑنے والا ٹیسٹ دینے سے انکاری کیوں ہیں؟

اڈیالہ جیل میں قید عمران خان 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات ہر حملوں کی سازش میں ملوث ہونے کے کیس میں جھوٹ پکڑنے والے ٹیسٹ سے بچنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں کیونکہ اس ٹیسٹ میں فیل ہو کر نہ صرف ان پر جھوٹے کی مہر ثبت ہو جائے گی بلکہ ان کی سزا بھی پکی ہو جائے گی۔
پچھلے چند ہفتوں سے پولیس ٹیم مسلسل اڈیالہ جیل جا کر انہیں پولی گراف ٹیسٹ کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن خان صاحب مسلسل انکاری ہیں، ان کا موقف ہے کہ ٹیسٹ کا مقصد ان کی سبکی کرنا ہے۔ لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمران خان کے مسلسل انکار کے باوجود ایک مرتبہ پھر ان کا فوٹو گرامیٹک اور پولی گراف ٹیسٹ کروانے کا حکم جاری کرتے ہوئے 9 جون تک رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ایسے میں اگر عمران خان ٹیسٹ دینے سے دوبارہ انکار کرتے ہیں تو ان کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی شروع ہونے کا امکان ہے کیونکہ قیدی عدالتی حکم کی حکم عدولی نہیں کر سکتا۔ اس سے قبل پولیس نے عدالت میں عمران کی جانب سے ٹیسٹ نہ کروانے کی رپورٹ جمع کروائی رھی۔ ڈی ایس پی لیگل نے بتایا تھا کہ ’جب تک عمران خان کے ٹیسٹ نہیں ہوں گے، تفتیش مکمل نہیں ہو گی۔‘ چنانچہ عدالت نے دوبارہ سے ٹیسٹ کروانے کا حکم نامہ جاری کر دیا۔
عمران خان کی جانب سے پولی گراف ٹیسٹ دینے سے انکار کرتے ہوئے ان کی لیگل ٹیم میں شامل رکن علی بخاری کا کہنا ہے کہ ’جن مقدمات میں پولیس عمران خان کا پولی گراف ٹیسٹ لینے کی کوشش کر رہی ہے، ان مقدمات کا چالان عدالتوں میں پیش کیا جا چکا ہے۔‘ بخاری نے کہا کہ ’ضابطہ فوجداری کے سیکشن 353 میں یہ واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ کسی بھی مقدمے کا چالان عدالت میں پیش کیے جانے کے بعد اگر پولیس کو ملزم کا کوئی بیان یا مزید شواہد درکار ہیں تو پولیس اس وقت تک ملزم کا بیان نہیں لے سکتی جب تک اس کا وکیل اس کے ساتھ نہ ہو۔‘
تاہم دوسری جانب اسلام آباد پولیس کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ عبدالستار کا کہنا تھق کہ فوجداری قوانین میں ’کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ پولی گراف ٹیسٹ کے لیے ملزم کے وکیل کا ہونا ضروری ہے۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’عام طور پر کسی ملزم کا پولی گراف ٹیسٹ متعلقہ عدالت کی اجازت سے لیا جاتا ہے اور اس کے لیے ملزم کی رضامندی ضروری نہیں ہوتی۔‘
پولیس افسر عبدالستار کا کہنا تھا کہ ’لاہور فرنزک لیب میں موجود افسران کو پہلے کیس کے بارے میں بتایا جاتا ہے جس کی تفتیش کے لیے ملزم کا پولی گراف ٹیسٹ کروانا ضروری ہوتا ہے۔ اس کیس کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک سوال نامہ تیار کیا جاتا ہے جس کے جواب ملزم کو دینا ہوتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ملزم کے بیانات کی روشنی میں ایک تجزیاتی رپورٹ تیار کی جاتی ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ ملزم سے جو سوالات پوچھے گئے تھے ان کے جوابات میں ملزم نے کتنے فیصد سچ بولا ہے اور کتنے فیصد جھوٹ کا سہارا لیا ہے۔ پولی گراف ٹیسٹ کی تجزیاتی رپورٹ کو کیس کے چالان کا حصہ بنایا جاتا ہے جسے متعلقہ عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔
اگر اس مرتبہ عدالت کے حکم پر عمران خان کا پولی گراف ٹیسٹ کروا لیا جاتا ہے تو وہ ملک کے پہلے سابق وزیر اعظم ہوں گے جنہیں جھوٹ پکڑنے کے ٹیسٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم عمران خان کے وکلا کا کہنا ہے کہ وہ اس عدالتی حکم نامے کو چیلنج کریں گے۔ عمران کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے استغاثہ کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ پولیس 9 مئی کے واقعات کے 127 دن بعد یہ ٹیسٹ کیوں کرانا چاہتی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ اب جن بیانات کی بنیاد پر پولیس عمران خان کا جھوٹ پکڑنے والا ٹیسٹ کروانا چاہتی ہے، وہ پہلے ہی لاہور ہائی کورٹ سے غیر قانونی قرار دیے جا چکے ہیں۔
عمران کا ساتھ دینے والی وکلاء برادری کا ماننا ہے کہ ایسے غیر ضروری ٹیسٹ کرانے کی اجازت خان کو رسوا کرنے اور انصاف کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔ عمران کے وکیل سلمان صفدر کے مطانق ایسے کیسز میں اس نوعیت کے ٹیسٹ کروانے کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”یہ ٹیسٹ نہ صرف غیر معتبر ہیں بلکہ ان کی کوئی قانونی حیثیت بھی نہیں ہے، اور دو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد جھوٹے مقدمات میں ایسے ٹیسٹ کروانے کا مطلب یہ ہے کہ استغاثہ کے پاس اپنے الزامات کے حق میں کوئی ثبوت موجود نہیں لہازا وہ برقی مشینوں کا استعمال کرنا چاہتے ہیں جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔‘‘
یاد رہے کہ اس وقت عمران خان جیل میں قید ہیں کیونکہ انہیں اختیارات کے ناجائز استعمال اور کرپشن کے ایک مقدمے میں چودہ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے، جبکہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو اسی کیس میں سات سال قید کی سزا دی گئی۔ یہ مقدمہ ایک سو نوے ملین پاؤنڈز کی رقم اور عمران خان کے القادر یونیورسٹی پروجیکٹ ٹرسٹ سے متعلق ہے۔ اس کے علاوہ ان پر نو مئی کے فسادات کے دوران ریاستی اداروں پر حملوں کی سازش کا الزام بھی عائد ہے۔ اس سے قبل جنوری میں ان کے خلاف تین مقدمات میں سزائیں سنائی گئی تھیں، جن کا تعلق ریاستی تحائف کی فروخت، ریاستی راز افشا کرنے اور غیر قانونی نکاح سے تھا، تاہم یہ تمام سزائیں یا تو کالعدم قرار دی جا چکی ہیں یا معطل کر دی گئی ہیں۔