صدیوں کی بھوک کب جائے گی؟
تحریر:عطا الحق قاسمی۔۔۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ جنگ
کھانا انسانی زندگی میں بہت اہمیت رکھتا ہے مگر ہم پاکستانیوں کی زندگیوں میں اس کی جو اہمیت ہےا س کا اندازہ غیر اقوام کو ہو ہی نہیں سکتا۔ مثلاً آپ ڈاکٹر سے پیٹ کی دوا لے کر اپنے کسی مہمان نواز دوست سے ملنے جائیں اور وہاں کھانے کا وقت ہو جائے تو وہ آپ کو کھانا کھلانے پر اتنا اصرار کرے گا کہ لگے گا ملک و قوم کے سارے مسائل آپ کی صرف ایک ہاں پر حل ہو جائیں گے۔ آپ اسےبتائیں گے کہ ڈاکٹر نے آپ کو آج کے دن فاقہ کرنے کیلئےکہا ہے مگر وہ اس ڈاکٹر کے جواب میں کسی حکیم کا یہ زریں مقولہ دہرائے گا کہ زہر کا علاج زہر ہے، لہٰذا بدہضمی کا علاج مزید بدہضمی ہے۔ اگر یہ حربہ بھی کامیاب نہ ہو تو وہ مہمان نواز دوست آپ کے جذباتی استحصال پر اتر آئے گا ’’ہم سے تو یہ پاپی پیٹ بہتر ہے جس کی اتنی ناز برداری کی جا رہی ہے‘‘۔ بالآخر یہ ثابت کرنے کیلئے کہ پاپی پیٹ سے زیادہ آپ کو اپنا یہ پاپی دوست عزیز ہے آپ کو وہ کھانا زہر مار کرنا پڑے گا جس کے نتائج آپ نے خود بھگتنا ہیں۔ آپ کے پاپی دوست نے نہیں۔
اسی طرح آپ کسی شہر میں صرف چوبیس گھنٹے کیلئے اپنے بعض ضروری کاموں کیلئے جاتے ہیں اور وہاں آپ کو اپنے کسی ملنے والے کا فون آ جاتا ہے ایک وقت کھانا آپ نے میرے ساتھ کھانا ہے اور اگر چوبیس گھنٹوں میں دو وقت کے کھانوں کی فرمائش ہو جاتی ہے تو پھر آپ اس شہر میں دو وقت کا کھانا کھائیں گے وہ کام نہیں کرسکیں گے جس کیلئے آپ نے اتنا لمبا سفر طے کیا تھا اور یقین جانیں دوستوں کی محبت کے طفیل عموماً ایسے ہی ہوتا ہے۔ جو پاکستانی لندن جاتے ہیں انہیں تو یہ کھانا بہت ہی مہنگا پڑتا ہے کہ ان کے عزیز انہیں کھانے کی دعوت دیتے ہیں اور ساتھ یہ بھی بتاتے ہیں کہ آپ فلاں ٹیوب اسٹیشن سےسوار ہوں فلاں اسٹیشن پر اتر کر گاڑی بدلیں پھر وہاں سے فلاں گاڑی لیں اور اس کے بعد ٹیوب اسٹیشن سے باہر نکل کر فلاں نمبربس پر سوار ہوں اور میزبان کے گھر پہنچیں جہاں ایک وقت کا کھانا اور میزبان کی ڈھیروں محبت آپ کے انتظار میں ہے۔کئی مہمان نواز میزبان کو کھانا کھلانے کے معاملے میں اتنے ’’حساس‘‘ ہوتےہیں کہ ان کے کھانے کی خاطر مہمان کا جہاز یا ٹرین چھوٹ جاتی ہے جس کے نتیجے میں انہیں وہ ایک وقت کا یہ کھانا بسا اوقات لاکھوں روپے کا پڑتا ہے کہ وہ اس بزنس میٹنگ میں شریک نہیںہو پاتے جس کےنتیجے میں انہیں لاکھوں کا فائدہ ہونا تھا۔ یہ تو میزبانوں کی محبت کا پہلو ہے مگر کچھ مہمان ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہر وقت کسی ’’میزبان‘‘ کی تلاش میں رہتے ہیں انہیںپتہ ہوتا ہے کہ دوپہر کو کس کے گھر سے کھانا آتا ہے اور کیا کھانا آتا ہے یا کونسا دوست کسی قریبی ریستوران میں لنچ بریک کے دوران پایا جاتا ہے چنانچہ یہ عین موقع پر وہاں پہنچ جاتے اور کہتے ہیں ’’میں ادھرسے گزر رہا تھا سوچا تم سے ملتا جائوں‘‘اور پھر وہ دونوں ہاتھوں سے اس سے ’’ملتے‘‘ ہیں جس سے ملنے وہ دراصل آئے تھے۔
یہ طبقہ اخباروں میں قل، چہلم اور اس طرح کی دوسری تقریبات کی خبروں پر نظر رکھتا ہے اور باقاعدگی سے ان تقریبات میں شرکت کرتا ہے چنانچہ جونہی کھانے پینے کا دور شروع ہوتا ہے ان پر وحشت سی طاری ہو جاتی ہے اور ان کے پورے جسم پر دانت اُگ آتے ہیں ایک رنگا رنگ قسم کے ورائٹی شو میں ہر آئٹم کے اختتام پر ایک پہلوان جی دونوں بازو اٹھا کر انگڑائی لیتے اور کہتے ساڈا آئٹم نہیں آیا، ہر آئٹم کے اختتام پر وہ یہی کہتے چنانچہ لوگوں میں ان کا آئٹم دیکھنے کا اشتیاق بڑھتا چلا گیا۔ آخر میں تقریب کے کمپیئر نے تقریب کے اختتام کا اعلان کیا اور حاضرین کو دعوت دی کہ وہ برابر والے ہال میں چائے وغیرہ پی کر جائیں۔ اس پر پہلوان جی نے ایک بار پھر اپنے بازو ہوا میں پھیلائے اور ایک بھرپور انگڑائی لے کر کہا ’’ساڈا آئٹم آگیا جے‘‘۔
کھانا ہم لوگوں کی زندگی میں اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ شادی بیاہ کے موقع پر اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگ کھانے پر ٹوٹ پڑتےتھے آج بھی دعوتوں میں یہی منظر دیکھنے میں آتا ہے۔ میرے شاعر دوست خالد احمد کو ایک شہر سے مشاعرے کا دعوت نامہ موصول ہوا جس میں ’’اعزازیہ‘‘ کا کوئی ذکر نہیں تھا صرف یہ لکھا تھا کہ آپ تشریف لائیں آپ کے قیام و طعام کا معقول انتظام ہوگا۔ اس پر خالد احمد نے انہیں لکھا ’’میں آپ کےمشاعرے میں اس وقت تک شرکت نہیں کروں گا جب تک آپ مجھے اس شخص کا نام نہیں بتلائیں گے جس نے آپ کو یہ بتایا ہے کہ لاہور میں میرے قیام و طعام کا معقول بندوبست نہیںہے‘‘۔اللہ میرے اس اعلیٰ شاعر اور دوست کے درجات بلند کرے۔ نعیم بخاری شو میں ایک دفعہ نعیم بخاری نے مجھ سے پوچھا تھا کہ ہماری قوم کے بعض افراد کھانے کو اپنی زندگیوں میں اتنی اہمیت کیوں دیتے ہیں۔ میرا جواب تھا کہ یہ صدیوں کی بھوک ہے جو ایک دو نسلوں سے نہیں جاسکتی، میں آج بھی یہی محسوس کرتا ہوں۔
بالاج ٹیپو ٹرکاں والا: اندرون لاہور میں انڈر ورلڈ اور نسل در نسل دشمنی کی داستان
پس نوشت: برادر عزیز ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے گزشتہ ہفتے اپنی کتاب ’’اکبر بنام اقبال‘‘ بھیجی ہے ۔اتنا قیمتی تحفہ مجھے بہت کم ملا ہے۔ اقبال بنام اکبر کے خطوط شائع ہو چکے ہیں لیکن اکبر کے یہ خطوط کہیں شائع نہیں ہوئے تھے جو انہوں نے اقبال کولکھے تھے۔ اب زاہد منیر کی تلاش کامیابی سے ہم کنار ہوئی اور یوں اب یہ خطوط پہلی دفعہ اہل ادب کی تشنگی دور کریں گے۔ یقیناً یہ بہت اہم کاوش ہے جس کیلئے زاہد منیر مبارکباد کے مستحق ہیں۔