کس اسمبلی کے اراکین خزانے پرسب سے زیادہ بوجھ ڈال رہے ہیں؟

ویسے تو قومی اسمبلی، سینیٹ، اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہوں کے علاوہ شاہانہ مراعات کے مزے لوٹتے ہیں تا ہم بہت کم لوگ جانتے ہیں تنخواہوں کے حوالے سے ہمارے اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹرز سب سے آگے ہیں۔ایک قومی اسمبلی رکن اور سینیٹر اپنی ماہانہ تنخواہ کی مد میں 7 لاکھ روپے وصول کرتا ہے۔ یعنی ایک ایم این کی ماہانہ تنخواہ سندھ اسمبلی کے رکن کی ساڑھے چار ماہ جبکہ خیبرپختونخوا کے رکن اسمبلی کی تین ماہ کی تنخواہ کے برابر ہے۔

ناقدین کے مطابق ایک طرف ملکی خزانہ خالی، عوام مہنگائی سے بلبلاتی، تنخواہ دار طبقہ دو وقت کی روٹی کو ترستا دکھائی دیتا ہے جبکہ دوسری طرف سادگی، قربانی اور کفایت شعاری کے دعوے کرنے والےہمارے منتخب نمائندے ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہیں اور شاہانہ مراعات لیتے نظر آتے ہیں! ناقدین کے مطابق سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی جلسوں میں تو حکومتی اخراجات میں کمی لانے کے دعوے کرتی ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ تنخواہ دار طبقے کی سیلریز میں معمولی اضافے پر چیخیں مارنے والے  قومی اسمبلی، چاروں صوبائی اسمبلیوں، گلگت بلتستان اسمبلی اور آزاد کشمیر اسمبلی کے ارکیں خود تنخواہ کی مد میں ماہانہ لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں جبکہ مراعات اور دیگر پروٹوکولز اس کے علاوہ ہیں۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق ملک بھر میں سب سے زیادہ تنخواہ اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹرز کی ہے، اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹرز کی ماہانہ تنخواہ 7 لاکھ 5 ہزار روپے ہے۔جبکہ گزشتہ ماہ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ میں 600 فیصد سے زائد اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد سینیٹ کے چیئرمین اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کی تنخواہیں 2 لاکھ 5 ہزار روپے سے بڑھا کر 13 لاکھ روپے کر دی گئی ہیں، اس کے علاوہ نئی تنخواہ کا 50 فیصد یعنی 6 لاکھ 50 ہزار روپے بطور تفریحی الاؤنس دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

اراکین اسمبلی کی تنخواہوں بارے سامنے آنے والے دستاویزات کے مطابق دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ تنخواہ اراکین پنجاب اسمبلی کی ہے۔ پنجاب اسمبلی کے اراکین تنخواہ کی مد میں ماہانہ 4 لاکھ 85 ہزار روپےوصول کرتے ہیں جبکہ تیسرے نمبر پر گلگت بلتستان کے اراکین کا نمبر آتا ہے جن کی ماہانہ تنخواہ 4 لاکھ 65 ہزار روپے ہے۔

دستاویزات کے مطابق بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی ماہانہ تنخواہ 4 لاکھ 40 ہزار روپے ہے جبکہ سندھ اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے ارکان کی تنخواہ دیگر کی نسبت کافی کم ہے، خیبرپختونخوا اسمبلی کے ارکان کی تنخواہ 2 لاکھ 60 ہزار جبکہ اور سندھ اسمبلی کے ارکان کی ماہانہ تنخواہ ایک لاکھ 55 ہزار روپے ہے۔اس طرح دیکھا جائے تو اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹرز کی ایک ماہ کی تنخواہ سندھ اسمبلی کے رکن کی ساڑھے 4 ماہ کی تنخواہوں سے زیادہ اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے رکن کی تقریباً 3 ماہ کی تنخواہ کے برابر ہے۔

اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی تنخواہیں تو ایک طرف ہیں تاہم بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ ریاست کے دو دیگر ستونوں یعنی عدلیہ اور انتظامیہ کی تنخواہیں مقننہ یعنی اراکین قومی و صوبائی اسمبلی سے کئی گنا زائد ہیں۔ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کی تنخواہوں کے حوالے سے سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کی گراس سیلری 28لاکھ15ہزار 387 روپے ہے۔

اسی طرح سپریم کورٹ ججز کی گراس سیلری 27لاکھ47ہزار361روپے ہے جبکہ چیف جسٹس ہائی کورٹس کی گراس سیلری 26لاکھ 53ہزار418 روپے اور ہائی کورٹس ججز کی کل تنخواہ26لاکھ6ہزار روپے ہے ۔

علاوہ ازیں وفاقی سیکرٹری کی گراس سیلری 8لاکھ18ہزار ،چیف سیکرٹری کی سیلری 14لاکھ1ہزار روپے ہے۔ آئی جیز کی تنخواہ 10 لاکھ 45 ہزار روپے ہے۔

اراکین پارلیمنٹ اور اشرافیہ کی لاکھوں روپے کی تنخواہوں اور شاہانہ مراعات کے انکشاف نے سوشل میڈیا پر طوفان برپا کر دیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں جب ملک کی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، کروڑوں پاکستانی مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کی چکی میں پس رہے ہیں، وہاں منتخب نمائندے، وزرا، چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی ماہانہ لاکھوں روپے کی تنخواہیں اور سہولیات سے کیسے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔جب عوام کی اکثریت خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، تو ایسے میں اشرافیہ کے لیے مراعات میں 600 فیصد تک کا اضافہ کس منطق کے تحت کیا جا رہا ہے؟

شہباز حکومت، جو خود سرکاری ملازمین کے مطالبات پر ’وسائل کی کمی‘ کا راگ الاپتی رہی، وہ اشرافیہ کو بغیر کسی جھجک کے ریلیف کیسے دے رہی ہے؟ناقدین کا مزید کہنا ہے کہ حکمرانوں کا یہ دوہرا معیار نہیں تو اور کیا ہے؟ عوام سے قربانی مانگنے والی حکومت آخر خود قربانی کب دے گی؟

Back to top button