ٹرمپ نے سیز فائر کے بعد خامنائی کے قتل کا منصوبہ کیسے ناکام بنایا؟

اسرائیل اور ایران کے مابین جنگ بندی کروانے کے بعد امریکی صدر ٹرمپ اسرائیل کو آن کیمرہ ایک موٹی گالی دینے پر اس لیے مجبور ہوئے کہ وزیراعظم نیتن یاہو نے سیز فائر کے فوری بعد ایک ایسے مقام پر میزائل داغنے کا حکم دے دیا تھا جہاں ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای موجود تھے۔ ٹرمپ کو یہ خوف تھا کہ اگر ایرانی سپریم لیڈر مارے گئے تو وہاں بھی دیگر کئی خلیجی ممالک کی طرح انتہا پسند مذہبی عناصر اقتدار میں آ جائیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ جنگ کے دوران ایران میں ریجیم کی تبدیلی کے مخالف رہے حالانکہ اسرائیلی وزیراعظم ایسا کرنا چاہتے تھے۔

معروف لکھاری اور تجزیہ کار نصرت جاوید اپنے تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نیٹو کانفرنس میں شرکت کے لئے جہاز میں سوار ہونے سے قبل صدر ٹرمپ نے اسرائیل کو کیمروں کے روبرو گالی دے ڈالی۔ وہ گالی نشر ہوئی تو یہ سمجھا گیا کہ ٹرمپ کی اسرائیل سے ناراضگی کی اصل وجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم نیتن یاہو امریکی صدر کی جانب سے اسرائیل اور ایران کے مابین جنگ بندی کے اعلان پر عملدرآمد کرنے میں لیت ولعل سے کام لے رہا ہے۔ جنگ بندی کے اعلان کے چند گھنٹے بعد ایران کی جانب سے پھینکا ایک میزائل اسرائیل کی سرحدوں میں گھس آیا۔ اس کی وجہ سے پھیلی تباہی سے غضب ناک ہوکر اسرائیلی وزیر دفاع نے تہران کے قلب میں واقع ٹھکانوں کو تباہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ لیکن ٹرمپ اسرائیل کو جوابی وار سے روکنے کو متحرک ہوگیا۔ انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم سے ٹیلی فون پر لمبی گفتگو کی۔ اد گفتگو کے باوجود نیتن یاہو نے ایرانی حدود میں بمبار طیارے بھیج کر بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اس وعدے کے ساتھ کہ یہ اس کی جانب سے ہوا آخری حملہ ہوگا۔ بعدازاں وہ اپنے وعدے پر عملدرآمد کرتا بھی نظر آیا۔

لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ٹرمپ اسرائیل کو گالی دینے کو کیوں مجبور ہوا۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے میں نے کئی بار وہ ٹیپ سنی جو ہیلی کاپٹر کے پروں کے شور میں ٹرمپ کی دی گالی کو ریکارڈ کر سکی۔ اس ٹیپ کو بہت توجہ سے سننے کے بعد یہ دریافت ہوا کہ ٹرمپ اسرائیل سے بنیادی طورپر اس لیے ناراض ہوا کیونکہ جنگ بندی کے باوجود اسرائیل نے ایک میزائل حملے سے اس محفوظ مقام کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جہاں اسرائیل کی معلومات کے مطابق ایران کے روحانی رہ نما اور سپریم لیڈر آیت اللہ خمینائی قیام پذیر تھے۔ اسرائیل گویا جنگ بندی پر عملدرآمد سے قبل ایران کو اس کے روحانی رہ نماسے محروم کرنا چاہ رہا تھا۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ اگر اسرائیل جنگ بندی سے چند ہی لمحے قبل اپنے ہدف کے حصول میں کامیاب ہوجاتا تو ایران شدید خلفشار کا شکار ہوجاتا۔ طاقت ور قیادت کی عدم موجودگی کی بدولت پیدا ہوئے خلاء کو پْر کرنے کے لئے ایران کی مذہبی قیادت میں شدید اختلافات رونما ہو سکتے تھے۔ اس کے نتیجے میں سیاسی و عسکری ادارے اور ان کے تنظیمی ڈھانچے بھی شدید ابتری کی لپیٹ میں آ سکتے تھے۔ اس سے پہلے امریکی صدر نے ایک ٹویٹ میں ایران میں ’’رجیم چینج‘‘ کی بات یقینا کی تھی۔ لیکن بعدازاں اسے احساس ہوا کہ ایران میں ’’رجیم چینج‘‘ کے لئے کوئی موثر حکمت عملی موجود نہیں لہذا وہ اس سے پیچھے ہٹ گئے تھے۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ہمارے خطے میں ’’رجیم چینج‘‘ کا لفظ 1950 کی دہائی میں ایرانی صدر مصدق کے خلاف امریکی سی ائی اے کی مدد سے چلائی گئی تحریک ہی کی بدولت متعارف ہوا تھا۔ بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو 1977ء کے مارشل لا کے بعد دعویٰ کرتے رہے کہ جنرل ضیا نے ایسا امریکی ایماء پر ان کے ایٹمی پروگرام کو روکنے کے لئے کیا۔ لیکن بھٹو نے جلاوطن ہونے کے بجائے تختہ دار پر لٹک جانے کو ترجیح دی۔ نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ٹرمپ ایک کائیاں شخص ہوتے ہوئے بخوبی جانتا ہے کہ فی الوقت ایران میں ’’ریجیم چینج‘‘ ممکن نہیں۔ سات میں وہ بے چین و بے قرار ہے کہ دنیا اسے ’’امن کا پیغام بر‘‘ کی حیثیت میں یاد رکھے۔

ٹرمپ اسی لیے تواتر سے یہ بات دہرا رہا ہے کہ اس نے حال ہی میں پاک-بھارت جنگ کو ’’ایٹمی‘‘ جنگ بن جانے سے روکا تھا۔ سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو امریکہ میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر ٹرمپ کے داماد کشنر کے گھر دو سے زیادہ برس تک مقیم رہا ہے۔ اسے ٹرمپ کے مزاج سے نآشنا نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اس حقیقت سے بے خبر کہ اپنے دوسرے دور اقتدار میں ٹرمپ ’’تاریخ میں زندہ رہنے کے لئے‘‘ کیا کرنا چاہتا ہے۔

Back to top button