پاکستانی عوام اپنے کس دشمن بارے کنفیوژن کا شکار ہیں؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہا ہے کہ حالیہ پاک انڈیا جنگ کے دوران ریاست کو ایک مرتبہ بھی عوام کو یہ نہیں بتانا پڑا کہ دشمن کون ہے، لیکن دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے خلاف جاری جنگ میں ریاست کا بیانیہ ابہام کا شکار ہے اور عوام اپنے دشمن کے حوالے سے کنفیوژن کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔
بی بی سی اردو کے لیے لکھے گئے اپنے سیاسی تجزیے میں عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ افراتفری کو کہاں امن سے مطلب۔ افراتفری تقسیم اور ابہام سے آگے کا مرحلہ ہے۔ معاشرے میں ابہام تقسیم کی وہ پہلی نقب ہے جو بیانیے کے ذریعے لگائی جاتی ہے۔ بیانیہ بھی وہ جو مقبول ہو یا نہ ہو لیکن جرأتِ سوال کو ختم کرے اور خوف کو مسلط کرے۔ انکا کہنا یے کہ صوبہ خیبر پختون خوا کئی برسوں سے مسلسل دہشت گردی کا شکار ہے۔ کوئی دن ہی ایسا ہو گا جب وہاں سے اموات کی خبر نہ آئے۔
عاصمہ شیرازی کے مطابق خیبر پختون کے عوام امن کے خواہاں ہیں مگر امن کے حصول کے لیے عملی اقدامات بارے کنفیوزڈ ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے شکار خیبر پختون خواہ کے عوام شدت پسندوں سے جنگ لڑنے کو تیار ہیں مگر ہاتھ ہتھیار اٹھانے سے مانع ہیں۔ طالبان کی صورت میں قاتل ان کی دہلیز پر کھڑے حملے کر رہے ہیں لیکن ان سے جنگ کی بجائے صوبے کی حکومت شدت پسندوں سے مذاکرات کی بات کر رہی ہے۔ اصل جنگ تو بیانیے کی ہے جسے بنانے کے لیے اگر، مگر اور چونکہ چنانچہ سے باہر نکل کر سوچنا ہو گا، لیکن عالم یہ ہے کہ بیانیے کی جنگ کے سب ہتھیار مخالف سمت میں ہیں۔
عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ مئی میں ہونے والی پاک انڈیا جنگ کے دوران ریاست کو ایک مرتبہ بھی عوام کو یہ بتانا نہیں پڑا کہ پاکستان کا دشمن کون ہے اور ہمیں اس کو جنگ میں کیسے شکست دینا ہے۔ وجہ یہ تھی کہ پاکستانی عوام متحد تھے، ان کا بیانیہ نہ تو منقسم تھا اور نہ ہی کسی کنفیوژن کا شکار تھا۔ لڑائی کی ہر صف کے پیچھے دوام افواج پاکستان کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ زندہ باد کے نعروں اور داد و تحسین کے ساتھ پاکستانی قوم منظم، متحد اور فخر مند رہی۔ یہ سب اس لازوال بیانیے کا اثر تھا جس نے ہجوم کو قوم بنایا۔
لیکن عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ دہشت گردوں اور شدت پسندی کے خلاف ہماری ریاستی جنگ میں بیانیہ ابہام کا شکار کیا گیا۔ یہ ادارہ جاتی ’اثاثے،‘ ’سیاسی اثاثے‘ بنے اور احساس تب ہوا جب نقب لگ چکی تھی۔
شدت پسندی کے خلاف جنگ میں کئی ایک المیے رہے ہیں۔ ریاست ابہام کا شکار رہی اور اچھے، برے طالبان کی تفریق منقسم بیانیے کو جنم دیتی رہی۔ یہ بیانیہ سیاست اور صحافت کے ذریعے ترویج پاتا رہا۔ کبھی ’جہادی‘ تو کبھی فسادی کا ابہام ریاستی اداروں کی پالیسیوں کا محور رہا۔ وہ کہتی ہین کہ دور کیوں جائیں، فقط 2021 میں عمران خان کی حکومت کے دوران جنرل فیض حمید نے’اچھے طالبان‘ کیساتھ مذاکرات کیے۔ صرف چند سال پہلے 2021 میں ’برے‘ قرار دیے جانے والے طالبان کو ریاستی سر پرستی میں عمران خان کی حکومت نے افغانستان سے واپس لا کر دوبارہ خیبر پختون خواہ میں بسانے کا فیصلہ کیا جو آج ہم سب بھگت رہے ہیں۔
سینئر اینکر پرسن کہتی ہیں کہ کمزور یادداشتوں کے لیے عرض ہے کہ اسی دوران پارلیمنٹ میں ان مذاکرات سے متعلق ’بیانیہ‘ تب کی عسکری قیادت نے سیاست دانوں کو سمجھایا، ستم ظریفی کہ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزیر اس بےہودہ منصوبے کے نہ صرف دفاع میں جٹ گئے بلکہ اپنے اس ازلی سیاسی بیانیے کو زور و شور سے دہرانے لگے کہ ’یہ ہماری جنگ نہیں ہے‘۔ عاصمہ کے بقعل عمران اپنی سیاست کے آغاز سے اب تک دہشت گردوں اور شدت پسندی کے خلاف جنگ میں مذاکرات کے بیانیے کے حامی رہے ہیں۔ اس بیانیے کی حمایت ادارے کے اندر پالیسی کی پذیرائی کے باعث عوامی رائے بنانے کے لیے تقویت پکڑتی رہی، یہاں تک کہ ان کے دور حکومت میں تب اس کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملا جب خود خان کے اعتراف کے مطابق 40 ہزار لوگ افغانستان سے واپس لائے گئے جن میں پانچ ہزار جنگجو بھی شامل تھے۔
حال ہی میں ایک انٹرویو میں وزیر دفاع خواجہ آصف سے سوال پوچھا گیا کہ اب عوام کیسے مان لیں کہ دہشت گردوں کے خلاف انہی کی زبان میں بات کرنے کی پالیسی تبدیل نہیں ہو گی؟ جواب میں انہوں نے کہا کہ اب ریاست ’ابہام‘ سے نکل آئی ہے۔ یہ خبر خوش نما ہے مگر پھر بھی دل ماضی کی پے در پے بدلتی پالیسیوں پر خدشات کا شکار ہے۔ بہر حال اب جب ریاست ابہام سے نکل آئی ہے تو کیا ان تمام کرداروں کو کٹہرے میں کھڑا کرے گی جن کی وجہ سے ہم ایک بار پھر شدت پسندی کا نشانہ ہیں اور یہ آگ گلی کوچوں میں ناچتی نظر آ رہی ہے۔
پاکستانیوں کیلئےورک ویزے پر بھی باہرجانامشکل کیوں ہوگیا؟
عاصمہ شیرازی کے بقول اس جنگ کو جیتنے کے لیے شدت پسندی کے خلاف موثر بیانیے کی ضرورت ہے۔ تاہم افسوس کہ رائے عامہ بنانے والے صحافی اور ’دانشور‘ خود خوف کا شکار ہیں۔ اسی لیے وہ نوشتہ دیوار پڑھنے کے باوجود ’مقبول اور منہ زور سماجی فسطائیت‘ کے سامنے خاموش ہیں۔
