پاکستانیوں کیلئےورک ویزے پر بھی باہرجانامشکل کیوں ہوگیا؟

خلیجی ممالک کے راستے انسانی سمگلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے پاکستان کے بین الاقوامی ایئرپورٹس پر بیرون ملک روزگار کے لیے جانے والے پاکستانیوں کے خلاف بلاتفریق سخت کارروائیاں شروع کر دیں، ایف آئی اے نے بیرون ملک ملازمت کے لیے جانے والے ہر مسافر کیلئے کسی تیسرے ملک جانے کی غیر قانونی کوشش نہ کرنے کی ضمانت پر مشتمل 19ویں یا 20ویں گریڈ کے سرکاری افسر سے تصدیق شدہ بیانِ حلفی جمع کرانا لازمی قرار دے دیا۔ نئی پالیسی کے نفاذ کے بعد مکمل سفری دستاویزات، ورک ویزا، پروٹیکٹر سرٹیفیکیٹ اور ملازمت کے معاہدوں کے باوجود مسافروں کو شک کی بنیاد پر روکا جانے لگا۔ جس کے بعد صرف ایک ہفتے کے دوران لاہور ایئرپورٹ سے ڈیڑھ سو سے زائد افراد کو آف لوڈ کر دیا گیا۔ جس سے قانونی طریقے سے بیرون ملک روزگار کے لیے جانے والے افراد کو بڑا مالی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے مختلف بین الاقوامی ایئرپورٹس پر ایف آئی اے امیگریشن حکام نے بیرون ملک روزگار کے لیے جانے والے پاکستانیوں کے خلاف غیر معمولی سختیاں شروع کر رکھی ہیں۔ ان اقدامات کی بنیادی وجہ حالیہ مہینوں میں سامنے آنے والے وہ متعدد واقعات ہیں جن میں وزٹ یا ورک ویزے پر خلیجی ممالک جانے والے پاکستانی شہری بعد ازاں غیر قانونی طور پر یورپ پہنچنے کی کوشش میں گرفتار ہوئے یا کشتی حادثات کا شکار بنے۔ حکام کے مطابق ان واقعات نے نہ صرف پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کو نقصان پہنچایا بلکہ انسانی سمگلنگ کے خطرات بھی بڑھادئیے ہیں، جس کے بعد اب ایف آئی اے کو تمام ائیرپورٹس پر مسافروں کی اضافی چھان بین اور کلیئرنس سخت کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ جس کے تحت جہاں مصدقہ حلف نامہ ضروری قرار دیا گیا ہے وہیں امیگریشن عملے کو متعلقہ مسافر کے ورک ویزے، پروٹیکٹر سرٹیفیکیٹ، ملازمت کے معاہدے اور اسپانسر کے تفصیلات کی از سرِ نو تصدیق کی بھی ہدایات جاری کی گئی ہیں جبکہ مشکوک کیسز میں مسافروں کو موقع پر ہی آف لوڈ کر نے کا حکم دیا گیا ہے۔ ناہم ناقدین کے مطابق ایف آئی اے کے بلاتفریق جاری سخت اقدامات نے قانونی طور پر روزگار کے لیے جانے والے ہزاروں محنت کشوں کے لیے شدید مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ قانونی دستاویزات کے حامل محنت کشوں کو بغیر کسی ثبوت کے صرف شبے کی بنیاد پر روکنا ناانصافی ہے، جس سے نہ صرف غریب طبقہ مالی نقصان اٹھا رہا ہے بلکہ ترسیلات زر میں کمی اور پاکستان کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ایف آئی اے، بیورو آف امیگریشن اور پروٹیکٹر ڈیپارٹمنٹ کے درمیان خودکار ڈیجیٹل ویریفیکیشن سسٹم قائم نہ کیا گیا تو یہ سخت پالیسیاں پاکستان کے لیبر ایکسپورٹ سیکٹر کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہیں اور ہزاروں ورکرز اپنی ملازمتوں سے محروم ہو سکتے ہیں۔
پاک افغان مذاکرات کے باوجود جنگ اور تباہی لازمی کیوں ہے؟
اطلاعات کے مطابق صرف لاہور ایئرپورٹ سے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ڈیڑھ سو سے زائد پاکستانیوں کو آف لوڈ کیا گیا ہے۔ ان میں زیادہ تر وہ مسافر شامل تھے جو سعودی عرب، بحرین، دبئی اور دیگر خلیجی ممالک جا رہے تھے۔ لاہور ایئرپورٹ پر تعینات ایک ایف آئی اے افسر کے مطابق ’گزشتہ چند ہفتوں میں ایسے چھبیس کیسز سامنے آئے جن میں پاکستانی شہری دبئی، بحرین یا لیبیا کے راستے غیر قانونی طور پر اٹلی یا سپین پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان واقعات کے بعد تمام ہوائی اڈوں پر امیگریشن عملے کو واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ کسی بھی مشکوک یا غیر واضح کیس میں کلیئرنس نہ دی جائے اور اب ان ممالک کو جانے والوں سے بیان حلفی وصول کیا جا رہا ہے۔’ امیگریشن کے ایک سینیئر افسر نے بتایا کہ ’کشتی حادثات کے بعد حکومت نے ہمیں ہدایت دی ہے کہ بیرون ملک جانے والے تمام ورکرز کی جانچ سخت کر دی جائے۔ کئی پاکستانی مزدور قانونی راستے سے خلیجی ممالک جاتے ہیں لیکن وہاں سے غیر قانونی طور پر یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کے باعث نہ صرف ان کی جانیں خطرے میں پڑتی ہیں بلکہ پاکستان کی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے۔‘
تاہم دوسری جانب متاثرہ مسافر ان اقدامات کو ’غیر منصفانہ اور غیر واضح‘ قرار دے رہے ہیں۔ لاہور ایئرپورٹ سے آف لوڈ ہونے والے ایک مسافر محمد اشرف نے بتایا کہ ’میں بحرین ملازمت کے لیے جا رہا تھا، میرا ورک ویزا درست تھا، پروٹیکٹر فیس جمع کروا چکا تھا، مگر ایف آئی اے اہلکاروں نے کہا کہ تمہارے پاس 19 گریڈ کے افسر کی گارنٹی نہیں ہے، لہٰذا تم نہیں جا سکتے۔ لاہور کا کوئی سرکاری افسر کیوں کسی دوسرے شہر یا گاؤں سے آنے والے فرد کے لیے حلف نامے کی تصدیق کرے گا؟ اب میرا لاکھوں روپے کا نقصان ہوگیا اور ملازمت بھی خطرے میں پڑ گئی۔‘ ہم غریب طبقے کے لوگ ہیں۔ مہینوں کی بچت اور قرض لینے کے بعد ٹکٹ، ویزا اور پروٹیکٹر کے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ ایف آئی اے کے عملے نے صرف شبہ کی بنیاد پر روک لیا۔ کسی ایک کے جرم کی سزا سب کو کیوں دی جا رہی ہے؟‘
