چترال میں اسماعیلی قصابوں پر گوشت فروخت کرنے کی پابندی کیوں؟

خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر چترال میں سُنی اور اسماعیلی مسلک سے تعلق رکھنے والے گروہوں کے درمیان گوشت کی فروخت اور قصاب کی دکانوں سے متعلق ایک ایسا متنازع ’معاہدہ‘ طے پایا ہے جس کے تحت اسماعیلی برداری سے تعلق رکھنے والے قصاب نہ تو سُنی گاہکوں کو گوشت فروخت کر سکیں گے اور نہ ہی کاروبار کی غرض سے اپنا مال چترال کے بازاروں میں فروخت کر سکیں گے۔
اس متنازع معاہدے کے مطابق اگر اسماعیلی قصابوں نے اس ’معاہدے‘ کی خلاف ورزی کی تو اُن پر تین لاکھ روپے جرمانہ، دکان کو سیل اور آئندہ کے لیے کاروبار پر پابندی عائد کی جائے گی۔
بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اس متنازع معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے اسے بنیادی انسانی حقوق کے متصادم قرار دیا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ہر طبقے اور برادری کے آئینی حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری کو پورا کرے کیونکہ اس نوعیت کی پابندی عائد کرنا مساوی معاشی مواقع سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔
دراصل چترال میں گوشت کی فروخت سے متعلق یہ ایک پرانا تنازع ہے جو کافی عرصہ سے چلا آ رہا ہے اور ماضی میں بھی اس پر متعدد معاہدے اور جرگے ہو چکے ہیں۔ سُنی مسلک کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ اہلسنت مذہبی وجوہات کی بنیاد پر اسماعیلی قصابوں کا ذبح کردہ گوشت استعمال نہیں کرتے ہیں۔ رواں برس مارچ میں بھی اسی نوعیت کا ایک متنازع معاہدہ سامنے آیا تھا جس کے تحت سُنی اور اسماعیلی برادریوں سے تعلق رکھنے والے قصابوں کو لوئر چترال کے علاقے گرم چشمہ کے مرکزی بازار میں کسی بھی مقام پر قصاب کی دکان کھولنے کی اجازت دی گئی تھی تاہم نئے معاہدے کے تحت اب اس پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
نئے معاہدے میں کہا گیا ہے کہ اس کے نافذ العمل ہوتے ہی تمام پرانے معاہدے اور جرگے کے فیصلے منسوخ تصور کیے جائیں گے۔
دونوں فریقوں کے درمیان طے پانے والے اس نئے متنازع معاہدے کے مطابق یہ معاہدہ ضلعی حکومت، چترال کے سُنی علما اور اسماعیلیہ ریجنل کونسل کے ذمہ داران نے متفقہ طور منظور کیا ہے جس کے دونوں فریق پابندی کریں گے۔متنازع معاہدے میں کہا گیا ہے کہ لوئر چترال کے علاقے گرم چشمہ میں کاروبار کرنے والے سنی و اسماعیلی قصاب اپنے پاس اپنی دکان کی پرنٹ شدہ رسید رکھیں گے جو کہ گوشت کی ضلع چترال میں ترسیل کے لیے لازماً استعمال ہو گی۔ اسماعیلی قصاب کاروبار کی غرض سے چترال کے دیگر بازاروں میں اپنا ذبح شدہ گوشت نہیں بھجیں گے۔ اس متنازع معاہدے میں قصابوں کے درمیان علاقوں کا تعین بھی کیا گیا ہے۔
معاہدے کے مطابق گرم چشمہ کے مرکزی بازار میں کسی بھی مسلک کے لوگ قصاب کا کام نہیں کریں گے اور اِس مقام پر دونوں فریق صرف فروزن چکن کی دکان ہی کھول سکتے ہیں جبکہ اس مرکزی بازار میں ذبح شدہ چکن کی فروخت پر بھی پابندی ہو گی۔
معاہدےکے مطابق اس علاقے میں واقع قاضی بازار میں صرف اہلسنت قصاب کام کریں گے جبکہ اس علاقے میں پہلے سے موجود اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والے قصاب اپنی دکانیں خالی کر کے اہلسنت قصابوں کے حوالے کریں گے، تاہم اسماعیلی افراد کے ان دکانوں سے متعلق کرایہ اور ملکیت کے حقوق موجود رہیں گے۔ اسی طرح اسی علاقے کے دوسری جانب واقع بازار میں صرف اسماعیلی برادری کے لوگ قصاب کا کام کریں گے اور اہلسنت قصاب اپنی دکانیں خالی کرکے اسماعیلی برداری کے حوالے کریں گے تاہم دکانوں کی ملکیت بدستور قائم رہے گی۔
اس معاہدے میں سُنی اور اسماعیلی قصابوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ گوشت فروخت کرتے ہوئے باقاعدہ اپنے لیٹر پیڈ یا شائع شدہ رسید فراہم کریں تاکہ بیچنے والے کی شناخت ممکن ہو پائے اور اگر اسماعیلی قصاب نے کسی اہلسنت کو گوشت فروخت کیا تو اس پر جرمانہ ہو گا۔ بی بی سی نے اس معاہدے پر دستخط کرنے والے اسماعیلی رہنماؤں سے رابطے کیے مگر انھوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ تاہم اس حوالے سے ہونے والے گذشتہ جرگوں میں شامل ایک اسماعیلی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر کوئی اسماعیلی چترال کے کسی اور علاقے میں یا چترال شہر میں مرغی کی دکان کھولتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ ذبح کرنے کے لیے سُنی ملازم رکھتا ہے۔‘
اسماعیلی برادری کی جانب سے اس متنازع معاہدے پر دستخط کرنے کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ’اصل حقیقت یہ ہے کہ اسماعیلی محب وطن اور امن پسند ہیں جو تنازعات میں نہیں پڑنا چاہتے ہیں۔ ہم امن کی خاطر اور اپنے ملک و علاقے کی خاطر ایسی باتیں بھی قبول کر لیتے ہیں جو ہمارے حقوق سے متصادم ہوتی ہیں۔‘ ایک اسماعیلی قصاب خاندان سے منسلک شخص نے بتایا کہ اس معاہدے کے بعد اب اسماعیلی قصاب مختلف علاقوں سے اپنے کاروبار ختم کرنے پر غور کر رہے ہیں کیونکہ اس معاہدے کی آڑ میں اب اسماعیلی قصابوں کو جرمانوں اور سزاؤں کا خدشہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’عموماً یہ ہوتا تھا کہ جب کبھی کوئی گرم چشمہ سے اسماعیلی اپنے رشتہ داروں کو ملنے کے لیے جاتے ہیں تو وہ روایتی طور پر اُن کے لیے گوشت وغیرہ لے کر جاتے ہیں، مگر اب گوشت کی اس نوعیت کی نقل و حمل پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔‘
اُن کے مطابق ’اب اگر ہم گوشت اپنے ہی اسماعیلی رشتہ داروں کے پاس لے کر جا رہے ہوں گے تو کوئی بھی ہمیں پکڑ کر پوچھ سکتا ہے اور ہم پر گوشت کو سپلائی کرنے کا الزام عائد کر سکتا ہے، جو کہ ایک تکلیف دہ صورتحال ہو گی۔‘
اہلسنت و الجماعت کی جانب سے معاہدے پر دستخط کرنے والے جمعیت علمائے اسلام چترال کے نائب امیر اور مذہبی رہنما قاری جمال عبدالناصر کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے تحت کسی نے بھی اسماعیلیوں کو قصاب کا کام کرنے سے نہیں روکا مگر ’بات یہ ہے کہ اہلسنت اسماعیلیوں کا ذبح شدہ گوشت استعمال نہیں کرتے ہیں تام اسماعیلی اہلسنت کا ذبح کردہ گوشت استعمال کر لیتے ہیں۔‘ اُن کا کہنا تھا کہ ماضی میں گرم چشمہ کے علاقے میں اکثریت کی بنا پر اسماعیلی قصابوں کو یہ اجازت دی گئی تھی کہ وہ اپنی قصاب کی دکان کھول سکتے ہیں اور یہ گوشت وہ صرف اسماعیلی صارفین کو ہی فروخت کر سکتے تھے ’مگر پھر یہ ہوا کہ انھوں نے اپنا ذبح کردہ گوشت چترال کے دیگر علاقوں میں بھی بھیجنا شروع کر دیا تھا۔‘ لیکن اسماعیلی رہنما اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔
دوسری جانب ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق پاکستان کے تمام شہریوں کو اُن کے فرقہ وارانہ تعلق سے قطع نظر مساوی آئینی حقوق حاصل ہیں اور کسی بھی تنازعہ میں فیصلے قانون اور انصاف پر مبنی ہونے چاہیں نہ کہ مصلت پسندی کے تحت ہوں۔ کمیشن نے کہا کہ ’فیصلے مصلحت پسندی کے تحت ہوں گے تو پھر معاشرے میں موجود تقسیم مزید گہری ہو گی اور عوام کا قانون کی حکمرانی پر اعتماد کمزور ہو جائے گا۔‘