کشمیر پر ٹرمپ کی ثالثی انڈیا اور پاکستان کو مہنگی کیوں پڑے گی؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار وسعت اللہ خان نے کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی دوستی یا دشمنی ریچھ کے جیسی ہے۔ اگر ٹرمپ واقعی کشمیر کے معاملے میں ثالثی پر آگے بڑھتے ہیں اور فرض کریں انڈیا بھی کسی نہ کسی طرح پاکستان کے ساتھ مزاکرات کی میز پر آ جاتا ہے اور ٹرمپ دونوں کو سن کر کوئی فیصلہ کر دیتے ہیں تو کیا انڈیا اور پاکستان کے لیے ریچھ کے فارمولے سے انحراف کرنا ممکن ہو گا۔

بی بی سی اردو کے لیے اپنے تازہ تجزیے میں وسعت اللہ خان کا کہنا ہے کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ٹرمپ ثالثی کا جو بھی فارمولا دیں اس پر انڈیا یا پاکستان میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو اعتراض نہ ہو۔ انکے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے ایک فارمولا تو یہ دیا جا سکتا ہے کہ اس وقت جتنا کشمیر جس کے قبضے میں ہے اسے اسکے پاس رینے دیا جائے، یعنی بھارت کے مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کے آزاد کشمیر کی موجودہ حیثیت برقرار رکھی جائے۔ دوسرا فارمولا یہ ہو سکتا ہے کہ گلگت بلتستان پاکستان رکھ لے کیونکہ وہاں سے شاہراہ ریشم گزرتی ہے جبکہ باقی کشمیر انڈیا کو دے دیا جائے۔ تیسرا فارمولا یہ ہو سکتا ہے کہ مقبوضہ اور ازاد کشمیر کو ایک غیر مسلح خود مختار ریاست بنا دیا جائے۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ اگر پاکستان یا انڈیا کا ان تینوں میں سے کسی بھی فارمولے پر اتفاق نہ ہوا تو پھر ٹرمپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ نے 25 برس کے لیے کشمیر کو پٹے پر لینے کا فیصلہ کیا ہے، اور اس دوران اگر پاکستان اور انڈیا کسی متفقہ نتیجے پر پہنچ جائیں تو واشنگٹن کو آگاہ کر دیا جائے۔ ان کے مطابق اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا انڈیا اور پاکستان ٹرمپ کا دیا گیا کوئی بھی کشمیر فارمولا مسترد کر کے ان کا ریچھ جیسا غصہ برداشت کر پائیں گے؟ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں مسئلہ کشمیر پر ٹرمپ کی ثالثی بارے سوچ کر خوش ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ٹرمپ کا کچھ جائے نہ جائے، آپ کا بہت کچھ جا سکتا ہے۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ انڈیا نے اب تک ٹرمپ کے جنگ بندی کے دعویٰ پر چُپ سادھ رکھی ہے جبکہ پاکستان نہ صرف اس دعوے کی تصدیق کر چکا ہے بلکہ بظاہر اِس پر بھی خوش ہے کہ ٹرمپ بیچ میں پڑ کے کشمیر سمیت دیرینہ مسائل خوش اسلوبی سے طے کروانے کی بھی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ پاکستانی خارجہ پالیسی میں انڈیا ہمیشہ سے مرکزی عنصر رہا ہے۔ انڈیا کے حجم اور علاقائی تسلط کے خوف نے ابتدا سے ہی پاکستان کو امریکہ کا دامن پکڑنے پر مجبور کیا۔ مگر امریکہ نے دو طرفہ تنازعات کا کوئی پائیدار حل نکالنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کے بجائے پاکستان کو 1950 کی دہائی میں سیٹو اور سینٹو کی لال بتی کے پیچھے لگا دیا۔ پاکستان کو اسلحے سے بھی لیس کیا مگر اس شرط پر کہ یہ اسلحہ صرف کمیونسٹ خطرے کے خلاف استعمال ہو گا۔

1959 میں پاک، امریکہ دفاعی تعاون معاہدے میں بھی پاکستان کو اُن کمیونسٹ ممالک سے بچانے کا وعدہ کیا گیا جن میں سے کسی کے ساتھ بھی پاکستان کا کوئی جغرافیائی جھگڑا نہیں تھا۔ اکتوبر، نومبر 1962 میں انڈیا چین جنگ کے موقع پر فیلڈ مارشل ایوب خان کو کچھ سیانوں نے مشورہ دیا کہ یہ سنہری موقع ہے مسئلہ کشمیر کو بزور حل کرنے کے لیے۔ مگر فیلڈ مارشل کو کینیڈی انتظامیہ کی اُس یقین دہانی پر زیادہ اعتماد تھا کہ اگر پاکستان اس لڑائی میں غیر جانبدار رہے تو بطور انعام کینیڈی انتظامیہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان سنجیدگی سے ثالثی کرے گی۔

وسعت اللہ خان بتاتے ہیں کہ تب تک انڈیا امریکہ سے زیادہ برطانوی اسلحہ استعمال کرنے کا عادی تھا جبکہ پاکستان کا دارومدار امریکی اسلحے پر تھا۔ پاکستان کو یکطرفہ طور پر یہ غلط فہمی بھی تھی کہ 1959 کا پاکستان امریکہ دفاعی معاہدہ وہ چھتری ہے جس کے تحت اگر پاکستان نے امریکہ کو سوویت یونین کی جاسوسی کے لیے پشاور ایئر بیس فراہم کیا ہے تو امریکہ بھی وقت پڑنے پر کم از کم دفاعی امداد معطل نہیں کرے گا۔ مگر 1965 کی لڑائی میں امریکہ نے یہ کہہ کر اسلحے کی سپلائی روک دی کہ ہم نے اب تک جو دفاعی آلات دیے وہ انڈیا کے خلاف استعمال کرنے کے لیے نہیں تھے۔ چنانچہ 17 روز میں ہی جنگ رُک گئی۔

یہ بات اب تک معمہ ہے کہ جو کام پاکستان کو 1962 کی انڈیا چین جنگ کے دوران کرنا چاہیے تھا وہی کام تین برس بعد کس برتے پر کرنے کا سوچا گیا اور اس سے حاصل کیا ہوا؟ مگر پاکستان کی یہ آس پھر بھی نہ ٹوٹی کہ امریکہ ایک نہ ایک دن ضرور کشمیر کا مسئلہ حل کروائے گا۔ اسی امید پر 1970 میں یحییٰ خان نے چین امریکہ تعلقات کی بحالی میں بچولیے کا کردار بھی ادا کیا۔ مسئلہ کشمیر تو خیر کیا حل ہوتا الٹا پاکستان کے لگ بھگ ایک برس بعد دو ٹکڑے ہو گئے۔ امریکہ نے بس اتنی مہربانی کی کہ دورانِ جنگ علامتی طور پر ساتواں بحری بیڑہ خلیج بنگال میں چند دن کے لیے نمائش پر لگا دیا اور اندرا گاندھی سے کہا کہ اب جبکہ آپ نے ڈھاکہ لے لیا ہے تو مغربی پاکستان کے محاذ پر جنگ جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔

نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف ڈھاکہ ہمارے ہاتھ سے گیا بلکہ جنگی قیدی چھڑوانے کی قیمت شملہ معاہدے کی اس شق کی صورت میں ادا کرنا پڑی کہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام بنیادی تنازعات کسی تیسرے کو بیچ میں ڈالے بغیر پرامن انداز میں حل کیے جائیں گے۔

یعنی اقوامِ متحدہ کی کشمیر کی بابت بنیادی قرار دادیں رہی سہی اہمیت بھی کھو بیٹھیں حالانکہ یہ قراردادیں پاکستان کے مطالبے پر نہیں بلکہ انڈیا کی شکایت پر منظور ہوئی تھیں۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ دوسری جانب چین پچھلے 65 برس سے پاکستان کے ساتھ ہے۔ اس نے بقول پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سی پیک جیسا ’گیم چینجر‘ دیا۔

چین نے اگرچہ تازہ ترین تنازع میں بھی پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا مگر اشرافیہ کو آج یہ سوچ سوچ کر زیادہ خوشی ہے کہ انکل ٹرمپ نے پاکستان انڈیا تنازعات اپنی نگرانی میں طے کروانے کا جو وچن دیا ہے شاید اس بار پورا ہو جائے۔

ثالثی کے شوقین ٹرمپ نے یوکرین اور روس کے درمیان بھی پڑنے کی کوشش کی اور مسئلے کا یہ حل تجویز کیا کہ اگر یوکرین اپنا 20 فیصد علاقہ روس کو دے دے تو یوکرین کے پاس پھر بھی بہت سی زمین رہے گی۔ ٹرمپ نے غزہ میں بھی جنگ بندی کروانے کے لیے مسئلے کا یہ حل پیش کیا کہ غزہ فلسطینیوں سے خالی کروا دیا جائے تا کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ ایسے میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر ٹرمپ کو کشمیر پر ثالثی کا موقع ملا تو وہ کیا فیصلہ دے سکتا ہے۔

Back to top button