کیا پاکستان نے انڈیا کے خلاف فتح کا جشن منانے میں جلدی کر دی؟

حکومت پاکستان کی جانب سے حالیہ جنگ میں بھارت کی شکست کو حتمی قرار دے کر فتح کا جشن منانا اور آرمی چیف کو بطور فیلڈ مارشل ترقی دینا بظاہر قبل از وقت اقدامات ہیں کیونکہ صدر ٹرمپ کے ذریعے جنگ بندی کروانے والا مودی ہمیشہ سے ناقابل اعتبار تھا، ہے، اور رہے گا۔ ایسے میں بھارت کی جانب سے دوبارہ حملے کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔
انگریزی روزنامہ ڈان میں اپنے تازہ تجزیے میں سینیئر صحافی اور لکھاری زاہد حسین کہتے ہیں کہ بھارت کی بلاجواز جارحیت کے خلاف کامیاب دفاع یقیناً ہماری سیکیورٹی فورسز اور قوم کے لیے ایک باعث فخر کامیابی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی پاکستان کی جانب سے فتح کا جشن منانا قبل ازوقت محسوس ہوتا ہے۔ دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف میزائلز اور ڈرونز کا تبادلہ بے شک رک چکا لیکن دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ بھارتی وزیر اعظم مودی کے بقول، ابھی پاک بھارت جنگ میں صرف ایک وقفہ آیا ہے۔ چنانچہ بقول زاہد حسین، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے جس میں احتیاط کی ضرورت ہے اور ہمیں فتح کا جشن منانے کی جلدی نہیں کرنی چاہیئے۔
سینیئر صحافی کے بقول انہیں وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ تبصرہ کہ انہوں نے 1971ء کی جنگ کا بدلہ لے لیا ہے، انتہائی قابلِ اعتراض لگا۔ ان کا کہنا تھا کہ کیا حالیہ بھارتی حملے کے جواب میں اسے فضائی شکست دینے کا موازنہ کسی بھی طرح ایسی جنگ سے کیا جاسکتا ہے کہ جس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہو گیا تھا؟ ان کا کہنا ہے کہ 1971 کا سانحہ محض بھارت کے فوجی حملے سے کئی زیادہ تھا۔ یہ ہماری اندرونی جنگ بھی تھی جسے باحیثیت قوم ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ یہ سانحہ ہمارے ضمیر پر نقش ہے۔
زاہد حسین کہتے ہیں کہ بھارتی جارحیت نے سیاسی محاذ پر قوم کو متحد کیا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات ایک جانب رکھ کر مسلح افواج کے ساتھ کھڑی ہوئیں۔ لیکن جیسے ہی جنگ کی گرد بیٹھنا شروع ہوئی تو وہ ایک بار پھر ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ چکے ہیں اور بھول گے ہیں کہ قومی سلامتی کو درپیش انڈین خطرہ ابھی تک ٹلا نہیں ہے۔ ایسے میں سب سے ذیادہ ذمہ داری حکومت کی ہے کہ بھارت کی جانب سے ایک اور حملے کے خطرے کے پیش نظر وہ سیاسی درجہ حرارت کو کم کرے کیونکہ سیاسی طور پر منقسم قوم سے ملکی دفاع کمزور ہوتا ہے۔
زاہد حسین کا کہنا ہے کہ بھارت کو حتمی شکست دیے بغیر حکومت کی جانب سے آرمی چیف کی فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی اور پاک فضائیہ کے چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ہیں۔ بلاشبہ یہ سچ یے کہ تینوں افواج نے بھارتی حملے ناکام بنانے میں کمال جرأت کا مظاہرہ کیا، بالخصوص پاکستانی فضائیہ نے سب سے اہم کردار ادا کیا جس نے نہ صرف اپنی فضائی سرحدوں کا دفاع کیا بلکہ کئی بھارتی جنگی جہاز بھی مار گرائے۔ اس عمل سے روایتی جنگی محاذ پر پاکستان کی رٹ بھی قائم ہوئی،
لیکن سینیئر صحافی زاہد حسین کا کہنا ہے کہ اسکے باوجود یہ ہضم کرنا مشکل ہے کہ چار روزہ جنگی نتائج کی بنیاد پر آرمی چیف کو فائو سٹار جرنیل کے طور پر ترقی کیسے دے دی گئی۔ انکے مطابق یہ ایک باقاعدہ جنگ نہیں تھی۔ جہاں مضبوط دشمن سے مقابلہ کرنے کی پاکستانی افواج کی صلاحیتوں کو سراہنے کی ضرورت ہے وہیں اپنی کمزوریوں کا تنقیدی جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔ بھارتی میزائلوں کا پاکستان کے اہم ترین فضائی اڈوں بشمول راولپنڈی میں نور خان ایئربیس کو نشانہ بنانا باعث تشویش ہونا چاہیے۔ یقینی طور پر ہمارا نقصان اتنا زیادہ نہیں ہوا ہوگا جتنا کہ بھارتی وزیر اعظم دعویٰ کر رہے ہیں۔ اسکے باوجود پاکستان پر ایک اور بھارتی حملے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
زاہد حسین کے بقول ایسا لگتا ہے کہ دونوں ممالک کی کشیدگی اب میدانِ جنگ سے سفارت کاری کے محاذ پر منتقل ہوچکی ہے جہاں دونوں ممالک اپنے وفود کو مختلف ممالک میں بھیج کر اپنے مؤقف کی وضاحت کر رہے ہیں۔ یہ تو واضح ہے کہ دونوں فریق دہشتگردی کا مسئلہ اٹھا رہے ہوں گے جو بظاہر جاری خفیہ جنگ میں ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ لیکن بین الاقوامی برادری دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے کیا کر سکتی ہے، اس کی حدود ہیں۔ دونوں فریقین نے ایک ایسے تنازعے میں فتح کا اعلان کیا ہے جس کا کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکلا۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جس کا کوئی واضح انجام نہیں۔