پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملنے کا امکان ختم کیوں ہوگیا؟

حکومت اور عمراندار ججز کے مابین جاری ڈیڈلاک میں الیکشن کمیشن بری طرح پھنسا دکھائی دیتا ہے، الیکشن کمیشن پر مخصوص نشستوں کے معاملے کے جلد حل کیلئے پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ دونوں کا دبائو بڑھ رہا ہے؛ اس حوالے سے قانون کی تشریح پر بھی الیکشن کمیشن کو دونوں ریاستی اداروں کے دبائو کا سامنا ہے۔ تاہم الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پر تاحال کوئی فیصلہ کرنے سے گریزاں ہے کیونکہ مخصوص نشستوں بارے الیکشن کمیشن کا کوئی بھی فیصلہ نہ صرف پارلیمنٹ میں طاقت کا توازن تبدیل کرسکتا ہے بلکہ ملکی سیاسی بساط پر ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے۔ تاہم مبصرین کے مطابق سپریم کورٹ میں عمرانداری دور کے خاتمے کے بعد پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔

مبصرین کے مطابق مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے اور اسپیکر قومی اسمبلی کے خطوط کے بعد گیم الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں آ چکی ہے الیکشن کمیشن اپنے فیصلے سے حکومتی ایوانوں میں زلزلہ بھی برپا کر سکتا ہے اور مخصوص نشستیں پارلیمانی جماعتوں میں تقسیم کر کے اتحادی حکومت کو دو تہائی اکثریت دیتے ہوئے اس کے ہاتھ مزید مضبوط بھی کر سکتا ہے

مبصرین کے مطابق پاکستان کی سیاسی صورت حال میں جہاں غیر یقینی کی فضا غالب ہے، وہیں حکمران اتحاد کو پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے ایک قانونی معمہ درپیش ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے متعارف ہونے کے بعد مخصوص نشستوں بارے فیصلہ ایک مرتبہ پھر قانونی اور آئینی بحث کے مرکز میں آ گیا ہے۔

تاہم آئینی ماہرین کے مطابق چھبیسویں آئینی ترمیم اور عدلیہ میں تبدیلیاں پی ٹی آئی کے لیے غیر یقینی مسقبل کا پیش خیمہ ہیں لگتا نہیں مستقبل قریب میں بھی پی ٹی آئی کو عدالتوں سے کسی قسم کا من چاہا ریلیف مل سکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق مخصوص نشستوں بارے تنازع کا مرکزی نقطہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی نظرثانی کی زیر التوا درخواست ہے۔

اس صورت حال میں جہاں ایک طرف ان مخصوص نشستوں کے معاملے پر قانونی تنازع جاری ہے، وہیں سیاسی سطح پر بھی پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے قیاس آرائیاں شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کو پلٹنے میں واضح طور پر دلچسپی رکھتی ہے۔ اس حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ مخصوص نشستوں بارے الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست کے کامیاب ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ تاہم 26ویں آئینی ترمیم کے بعد اس نوعیت کے مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی آئینی بینچوں کے قیام کے فیصلے نے اس معاملے میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں۔ تاہم سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آئینی بینچ کی تشکیل کے بعد پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں بارے کیس میں من چاہا ریلیف ملنے کے امکانات معدوم ہو گئے ہیں۔

پی ٹی آئی سیکرٹری جنرل سلمان راجہ کے خلاف پارٹی قیادت میں بغاوت

تجزیہ کاروں کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلیوں میں تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں ملنے کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں جہاں ایک طرف الیکشن کمیشن اس حوالے سے سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے پر عملدرآمد سے انکاری ہے وہیں دوسری جانب اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے مخصوص نشستوں بارے اپنے اقلیتی تفصیلی فیصلے میں عمراندار ججز کی دھلائی کرتے ہوئے اکثریتی فیصلے اور جاری کردہ وضاحتوں کو نہ صرف خلاف قانون قرار دیا ہے بلکہ وضاحت کر دی ہے کہ الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں بارے اکثریتی فیصلے پر عملدرآمد کا پابند نہیں اور اس فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کی وجہ سے الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی کوئی کارروائی بھی نہیں ہو سکتی۔

Back to top button