شاہ محمود اینڈ کمپنی نے عمران خان کے خلاف بغاوت کیوں کر دی؟

تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے بالآخر اپنے بانی عمران خان کے خلاف اعلان بغاوت کرتے ہوئے ان کے موقف کے برعکس حکومت کے ساتھ مذاکرات کی تجویز پر مبنی ایک خط لکھتے ہوئے اسے پبلک کر دیا ہے۔
یاد رہے کہ عمران اتحادی حکومت کی بجائے فوجی قیادت کے ساتھ بات چیت پر مصر ہیں جبکہ فوجی اسٹیبلشمنٹ ایسا کرنے سے انکاری ہے۔ تاہم اب اپنے کپتان کے موقف کی نفی کرتے ہوئے جیل میں قید پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور ان کے چار دیگر ساتھیوں نے سیاسی مذاکرات کو بحران سے نکلنے کا واحد راستہ قرار دیدیا ہے۔ جیل سے ایک خط میں شاہ محمود قریشی، یاسمین راشد، عمر چیمہ، اعجاز چوہدری اور میاں محمود الرشید نے کہا ہے کہ سیاسی اور ادارہ جاتی سطح پر فوری مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ یہ خط ایسے وقت میں لکھا گیا ہے کہ جب سپریم کورٹ کی جانب سے 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث ملزمان کے خلاف کیسز کے فیصلے سنانے کی ڈیڈ لائن بہت قریب آ گئی ہے۔
سینیئر صحافی انصار عباسی کے مطابق خط میں بیان کردہ موقف پارٹی کے بانی عمران خان کے اس موقف سے مختلف ہے کہ مذاکرات صرف فوجی اسٹیبلشمنٹ سے ہی ہو سکتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی اور چار دیگر پارٹی رہنماؤں نے ایک دستخط شدہ خط میں زور دیا ہے کہ سیاسی سطح پر حکومت کے ساتھ مذاکرات ضروری ہیں، اور انہیں فوراً شروع کرنا چاہیئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جیل میں قید رہنمائوں کا یہ خط پارٹی کے کچھ ایسے ساتھیوں کی مشاورت سے جاری کیا گیا جو وزیراعظم شہباز شریف کی مذاکرات کی پیشکش کا مثبت جواب دینا چاہتے تھے لیکن عمران خان نے ان کی یہ رائے رد کر دی تھی۔
لاہور کی جیل میں قید ان رہنمائوں نے لکھا ہے کہ انہیں بھی حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل کا حصہ بنایا جائے، انکا کہنا ہے کہ ملکی تاریخ کے اس بدترین بحران سے نکلنے کا واحد طریقہ مذاکرات ہیں۔ خط میں ان رہنمائوں کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں کسی بھی جانب سے پہل کو تنقید کا نشانہ بنانا دراصل مذاکرات سبوتاژ کرنے کے مترادف ہو گا، اور ایسی کسی رکاوٹ کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مذاکراتی کمیٹی نامزد کی جائے، اور پارٹی کے پیٹرن انچیف عمران خان تک دیگر رہنماوں کی رسائی کو آسان بنایا جائے تاکہ مشاورت کیلئے نقل و حرکت آسان ہو سکے، او روقتاً فوقتاً مذاکراتی عمل جاری رہ سکے۔
جنرل فیض حمید کو سزا سنائے جانے کے بعد عمران کا کیا بنے گا؟
پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے خط کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ جیل میں قید رہنمائوں کا خط انہیں مل گیا ہے اور ان کی رائے پر غور کیا جا رہا ہے۔ تاہم، اس خط کے مندرجات عمران خان کے موقف سے بہت مختلف ہیں جنہوں نے چند روز قبل واضح الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ وہ حکومتی اتحاد سے بات چیت کیلئے تیار نہیں، اور صرف فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کو ممکن سمجھتے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ موجودہ حکمران انتخابی دھاندلی سے اقتدار میں آئے ہیں لہذا وہ انہیں تسلیم نہیں کرتے۔
تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کے دست راست شاہ محمود قریشی اور ان کے دیگر ساتھیوں کا پارٹی لائن کے بر خلاف خط لکھنا پارٹی میں بڑھتے ہوئے انتشار کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کے مطابق جیل میں قید سینئر رہنما اب اس لیے بھی کھل کر حکومت سے بات چیت کی حمایت کر رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کی مقرر کردہ وہ ڈیڈ لائن قریب آ رہی ہے جس سے پہلے عدالتوں نے 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے ملزمان کو سزائیں سنانی ہیں۔