ڈرون کی ایجاد نے امریکہ کے لیے پاکستان کو بے وقعت کیوں کر دیا؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ اپنے دشمن کو نشانہ بنانے کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی ایجاد کر لینے کے بعد امریکہ کو خطے میں پاکستان کی ضرورت نہیں رہی تھی لہذا وہ افغانستان کو طالبان کے حوالے کر کے واپس چلا گیا۔ لہذا ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ اب کبھی پاکستان امریکہ کے لیے بے وقعت ہو چکا ہے اور اسے ہماری ضرورت نہیں پڑنے والی، لہذا ہمیں بھی امریکی امداد کا انتظار کیے بغیر معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا پلان بنانا ہو گا۔
اپنی تازہ تحریر میں جاوید چودری بتاتے ہیں کہ جنرل احسان الحق 2003میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘ افغانستان میں ان دنوں امریکا کا آپریشن چل رہا تھا‘ نیٹو فورسز نے 2001 میں افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا لیکن اس کے باوجود ملک کے مختلف حصوں میں طالبان قابض تھے اور امریکا انھیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ختم کر رہا تھا‘ جنرل احسان الحق کو طالبان کے سلسلے میں2003 میں امریکا کی دعوت دی گئی ‘ سرکاری مصروفیات کے دوران انھیں ایک دن سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹر بلایا گیا‘ ہیڈکوارٹر میں انھیں ایک تھیٹر قسم کی جگہ لے جایا گیا‘ دیوار کے ساتھ کرسیاں تھیں جب کہ سامنے سمارٹ ورک سٹیشن تھے اور ان کے سامنے بڑی بڑی اسکرینیں تھیں‘ ورک اسٹیشنز پر نوجوان لڑکے لڑکیاں بیٹھے تھے۔
جنرل احسان کے سامنے لگی سکرینز چلنا شروع ہوئیں تو ان پر مختلف مناظر آنے اور جانے لگے‘ کسی جگہ چراہ گاہیں تھیں‘ کسی جگہ ندیاں‘ نالے اور دریا تھے اور کسی جگہ خشک بے آباد پہاڑ تھے‘ اس دوران ایک اسکرین پر دو خشک پہاڑوں کے درمیان چھوٹی سی وادی نظر آئی‘ ورک سٹیشنز پر بیٹھے نوجوانوں نے میز پر لگی ناب گھمائی اور تھیٹر کی تمام سکرینز پر وادی نظر آنے لگی‘ اسکے بعد تمام اسکرینیں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ گئیں اور کیمرہ وادی پر فوکس کرتا چلا گیا‘ تھوڑی دیر بعد وادی کا ایک مکان نظر آنے لگا‘ کیمرے نے اسے فوکس کیا تو مکان میں موجود لوگ دکھائی دینے لگے‘ صحن میں چار رائفل بردار لوگ واک کر رہے تھے‘ دو لوگ مکان کی چھت پر پہرہ دے رہے تھے۔
جاوید چودھری بتاتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں میں کلاشنکوفیں تھیں‘ وہ شام کا وقت تھا‘ سورج پہاڑوں میں چھپ رہا تھا‘ کیمرہ وادی کا جائزہ لیتا تھا اور پھر دوبارہ اس مکان پر فوکس کر لیتا تھا‘ وہ ساتھ ساتھ ناب گھما کر مکان کو فوکس بھی کر رہا تھا‘ ایک پوائنٹ پر آ کر اس نے الٹی گنتی گننا شروع کی اور زیرو پر پہنچ کر ٹیبل پر موجود سرخ بٹن دبا دیا‘ سکرین پر خوف ناک دھماکا ہوا اور وہ مکان اپنے تمام مکینوں سمیت صفحہ ہستی سے مٹ گیا‘سکرینز پر دھوئیں اور گرد کے سوا کچھ نہیں تھا‘ کیمرہ تھوڑی دیر دھوئیں اور گرد پر فوکس رہا اور پھر آہستہ آہستہ اوپر اٹھ گیا‘ اب پوری وادی نظر آ رہی تھی‘ لوگ مختلف گھروں سے نکل کر ملبے کی طرف دوڑرہے تھے‘ جنرل احسان حیرت سے یہ سب دیکھتے رہے۔
جنرل احسان کو بعدازاں ڈائریکٹر کے پاس لے جایا گیا‘ اس نے انھیں بتایا‘ یہ ڈرون تھا‘ ہم نے ایک ایسی ٹیکنالوجی ڈویلپ کر لی ہے جس کے ذریعے ہمیں اب کسی مقام کو نشانہ بنانے کے لیے لوگ بھجوانا پڑتے ہیں اور نہ جہاز‘ ہم آسمان سے ٹارگٹ کو فوکس کرتے ہیں‘ ہمارے ڈرون وہاں پہنچتے ہیں اور ہم واشنگٹن سے بٹن دبا کرٹارگٹ اڑا دیتے ہیں‘ یہ جنرل احسان کے لیے نئی چیز تھی‘‘ انھیں بتایا گیا اس ڈرون کا نام پری ڈیٹر (Predator) ہے اور اسے اڑانے‘ فائر کرنے اور واپس اتارنے کے لیے کسی شخص کی ضرورت نہیں ہوتی‘ یہ ریموٹ کنٹرول کے ذریعے آپریٹ ہوتے ہیں‘ ہمیں بس انھیں اڑانے اور اتارنے کے لیے ٹارگٹ کے قریب ’’ائیر سٹرپس‘‘ چاہیے ہوتی ہیں اور یہ بھی چند برسوں کی بات ہے‘ ہم پانچ سال میں انھیں امریکا سے اڑائیں گے اور امریکا ہی میں لینڈ کرا دیں گے۔
جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ یہ پلان اس وقت عجیب محسوس ہوتا تھا‘ لیکن آج ایسا ہو چکا یے۔ اب امریکہ کو نہ فوجی چاہیئں اور نہ ہی پائلٹ‘ امریکی فوج امریکا میں بیٹھ کر پوری دنیا میں بمباری کر سکتی ہے اور گراؤنڈ سولجر کے بغیر دوسرے ملکوں کو فتح کر رہی ہے‘ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو 2003 میں معلوم ہو گیا تھا کہ امریکا اگلے پانچ برسوں میں پاکستان کی محتاجی سے آزاد ہو جائے گا‘ یہ صرف اس وقت تک ہمارے ساتھ چلے گا جب تک اس کے ڈرون کی کیپسٹی میں اتنا اضافہ نہیں ہو جاتا کہ یہ امریکا سے اڑ سکیں اور واپس امریکا ہی میں لینڈ کر جائیں۔
دوسرا فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اندازہ تھا کہ امریکا کو آخری مرتبہ ہماری ضرورت تب پڑے گی جب یہ افغانستان سے واپس جائے گا اور اس کے بعد پاکستان اس کے لیے غیر ضروری ہو جائے گا لہٰذا ہمارے پاس امریکا کی واپسی تک کا وقت ہے‘ اسے سوچنا چاہیئے تھا کہ اب ہم نے معاشی لحاظ سے خود ک2 مضبوط کرنا ہے‘ اور ہم نے اگر یہ وقت ضایع کر دیا تو پھر ہمیں دوبارہ موقع نہیں ملے گا‘ یہ فیصلہ بھی ہونا چاہیئے تھا کہ ہم امریکا کی افغانستان واپسی سے پہلے علاقائی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنا لیتے‘ ہمیں چاہیئے تھا کہ ہم بھارت کے ساتھ مسائل کا دیرپا حل نکالتے‘ چین اور روس کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرتے‘ اور خود کو معاشی لحاظ سے مضبوط کرتے۔
جاوید چوہدری کہتے ہیں لیکن افسوس کہ اس دوران نئی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کا تجربہ بھی شروع کر دیا جو ٹوٹے ہوئے دانت پر آئس کریم ثابت ہوا۔
اس نے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا اور وہ وقت بھی ضایع کر دیا جس میں ہم نے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا تھا‘ ہم اس قیمتی وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے رہ گئے اور امریکا طالبان کو ہمارے متھے مار کر اگست 2021 میں افغانستان سے نکل گیا اور اس کے جاتے ہی ہماری ساری معیشت زمین بوس ہو گئی‘ ہم اس دوران امریکا کے لیے اتنے غیر اہم بھی ہو گئے کہ جوبائیڈن نے اپنے چار برسوں میں ہمارے وزیراعظم کو فون کیا اور نہ ہماری مبارک باد وصول کی‘ اس نے پاکستان کو اپنے فوجی کمانڈرز کے حوالے کر دیا‘ یہ آتے رہے اور اپنے کام نکلواتے رہے‘ جوبائیڈن کے چار برسوں میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن بھی پاکستان نہیں آیا۔
جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ بائیڈن کے بعد 20 جنوری 2025 کو ڈونلڈ ٹرمپ دوسری مرتبہ صدر بنا تو اس نے ہمارے کسی لیڈر کو دعوت دی اور نہ ہی پاکستان کا نام لیا‘ ہم آج بھی یہ امید لگا کر بیٹھے ہیں ٹرمپ عمران خان کا نام لے کر کوئی ٹویٹ ہی کر دے اور اس کے بعد ہمارا اپنے پرانے اتحادی سے رابطہ استوار ہو جائے لیکن یہ بھی نہیں ہو رہا‘ کیوں نہیں ہو رہا؟ اس کی صرف ایک وجہ ہے‘ امریکا وار ٹیکنالوجی میں اتنا آگے بڑھ گیا ہے کہ اسے اب پاکستان جیسے کسی اڈے کی ضرورت نہیں رہی‘ اسے اگر افغانستان پر دوبارہ حملہ کرنا پڑا تو یہ میامی سے کرے گا اور بات ختم‘ ہم نے اپنے 20 قیمتی سال ضایع کر دیے ہیں۔
چنانچہ بقول جاوید چویدری، ہمارے لیے بہتر ہے کہ ہم اب اس حقیقت کو مان لیں اور امریکا کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا شروع کردیں‘ سسٹم کی خرابیاں دور کریں‘ ہمسایوں کے ساتھ تعلقات ٹھیک کریں‘ لڑائیاں بند کریں‘ بزنس مینوں کے ساتھ فائنل ڈیل کریں‘ سیاسی افہام و تفہیم پیدا کریں اور آئین میں جتنی بھی تبدیلیاں کرنی ہیں ایک ہی بار کر لیں اور اس کے بعد پوری قوم کو کام پر لگا دیں اور دائیں بائیں نہ دیکھیں‘ ہمارے پاس اب صرف یہی ایک راستہ بچا ہے اور ہم نے اگر اسے بھی بند کر دیا تو پھر شاید ہمارے لیے کوئی نیا راستہ نہ بچے۔