افغانی پاکستانیوں سے زیادہ نفرت پنجابیوں سے کیوں کرتے ہیں؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت اور عوام پاکستانیوں سے زیادہ نفرت پنجابیوں سے کرتے ہیں جس کا اظہار بھی وہ کھلے عام کرتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان نے بھی افغانستان سے تعلقات بہتر کربے کی کوششیں ختم کر دی ہیں جس کا ایک بڑا ثبوت خواجہ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی جانب سے افغانستان کے سابقہ حکمران محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دینا تھا۔ یاد رہے کہ یہ وہی لٹیرا غزنوی ہے جس نے سومنات کا مندر توڑا تھا اور جس کے نام پر پاکستانی فوج نے اپنے خطرناک ترین میزائل کا نام رکھا ہے۔

اپنے تازہ تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ امریکی افواج کی افغانستان سے ذلت آمیز روانگی سے قبل میں دہائی مچانا شروع ہوگیا تھا کہ ”فاتح“ کی حیثیت میں کابل لوٹے طالبان پاکستان کے لئے مشکلات کھڑی کریں گے۔ اپنی بات سمجھانے کے لئے تفصیل کے ساتھ چند ذاتی تجربات کا ذکر بھی کیا جو افغانستان کے متعدد سفر کے دوران میرے مشاہدے میں آئے۔ طالبان کی کابل واپسی سے قبل جب بھی افغانستان گیا تو وہاں کے شہروں خاص طورپر کابل میں عام شہریوں کی اکثریت کا رویہ پاکستان کے بارے میں واضح طورپر مخاصمانہ پایا۔ جن لوگوں سے تلخ ترش باتیں سننے کو ملیں ان کا حامد کرزئی یا بعدازاں اشرف غنی کی حکومتوں سے دور پار کا تعلق بھی نہیں تھا۔ قطعی طورپر غیر سیاسی افغان تھے۔ اہم ترین بات یہ حقیقت بھی تھی کہ مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے وہ ”پاکستانی“ لفظ سے ناآشنا سنائی دئیے۔ ان کے غصے کا نشانہ ”پاکستانی“ نہیں بلکہ ”پنجابی“ ہوتے۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ لندن میں قیام کے دوران مجھے ایک ایسے افغان سے گفتگو کا موقعہ ملا جو کسی زمانے میں کابل میں روسی شفقت کی بدولت قائم ہوئی حکومت میں اہم عہدے پر فائز تھا۔ موصوف ڈاکٹر نجیب کی حکومت ختم ہونے کے بعد کسی نہ کسی طرح لندن پہنچ کر وہاں سیاسی پناہ حاصل لینے کے باوجود خود کو ”مارکسٹ“ کہلانے پر اصرار کرتے تھے۔ وہ کارل مارکس کی تعلیمات کو ”سوویت یونین کی غلطیوں“کے باوجود کسی بھی معاشرے کے لئے اکسیر کی مانند تصور کرتے۔ خود کو کمیونسٹ قرار دینے والے لوگ عموماً مذہبی ونسلی تفریق سے بالاتر سنائی دیتے ہیں۔ میں نے جب ان صاحب کو کابل میں اپنے ساتھ ”پنجابی“ ہونے کے حوالے سے تلخ تجربات کا حوالہ دیا تو موصوف نے برجستہ پنجاب کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ وہ بہت دکھ کیساتھ اس امر پر بھی تاسف کا اظہار کرتے رہے کہ افغانستان نامی ملک کا قیام عمل میں لانے والے احمد شاہ ابدالی دلی پہنچنے کے بعد وہاں تخت نشین ہونے کے بجائے کابل کیوں لوٹ گئے تھے۔

”مارکسٹ“ افغان کی ”پنجاب“ کے بارے میں نفرت کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے افغانستان کے ایک سفر کے دوران قندھار کے گرد و نواح میں متحرک چند طالبان سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ امریکی افواج ان دنوں تقریباََ چار سال سے افغانستان میں موجود تھیں۔ جن سے ملنے کا متمنی تھا۔ وہ ”مطلوب دہشت گردوں“ کی فہرست میں شامل تھے۔ میرے لیکن میرے میزبان بہت بااثر آدمی تھے۔ انہوں نے قندھار-ہرات روڈ پر واقع انگوروں کے ایک باغ میں رات کے اندھیرے میں چند نوجوان طالبان سے ملاقات کروا دی۔ اس ملاقات میں جب ”پنجابیوں“ کا ذکر ہوا تو تین نوجوان بھڑک اٹھے۔ ان میں سے ایک نہایت سنجیدگی سے مجھے بتانا شروع ہو گیا کہ اقتدار میں واپسی کے بعد ”اب کی بار“ طالبان بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنا چاہیں گے۔ وہ مصر رہا کہ افغانستان کے پھل نہایت سرعت سے بذریعہ پاکستان پورے بھارت کی منڈیوں میں پہنچائے جا سکتے ہیں۔ لیکن ”پنجابی“ اس عمل میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ میں اسے یہ سمجھانے میں قطعاً ناکام رہا کہ افغانستان پر قابض امریکی پاکستان کے جنرل مشرف کو بھارت کے ساتھ ”دائمی امن“ کی راہ نکالنے کو مجبور کر رہے ہیں۔ لیکن مسئلہ کشمیر جنرل مشرف کو بھی آگے بڑھنے نہیں دے رہا۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ان دو واقعات کا ذکر بنیادی طور پر یہ عرض گزارنے کی خاطر کیا ہے کہ کمیونسٹ ہو کٹر مسلمان یا قوم پرست، افغانستان کے عوام کی اکثریت ”پنجابیوں“ کو پسند نہیں کرتی۔ ڈیورنڈ لائن کو بھی وہ پاک-افغان سرحد تسلیم نہیں کرتے۔ افغانوں کی تاریخی یادداشت برطانوی سامراج کی کھینچی اس لائن کو باقاعدہ سرحد تسلیم کرنے میں شدید دشواری محسوس کرتی ہے۔ پنے تجربات کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں اصرار کرتا ر ہا کہ فاتح کی صورت کابل لوٹنے کے بعد طالبان پاکستان کو کسی خاطر میں نہیں لائیں گے۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ اپنے ”جذبہ ایمانی“ کی بدولت انہوں نے ایک نہیں بلکہ دو سپرطاقتوں کو شکست دی ہے۔ 1980ء کی دہائی میں اگر سوویت یونین افغانستان میں ذلیل وخوار ہوا تو امریکہ بھی 21 سال تک بھاری بھر کم تعداد میں جدیدترین اسلحہ سمیت اس ملک پر قابض رہنے کے باوجود بالآخر ذلیل ورسوا ہوکر وہاں سے اپنی افواج نکالنے کو مجبور ہوا۔ چنانچہ حالیہ تاریخ کے تناظر میں لہٰذا وہ پاکستان کی بات توجہ اور برادرانہ انداز میں ہرگز نہیں سنیں گے۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ شور مجانے کے باوجود کسی بدنصیب نے میری پکار نہیں سنی۔ عمران خان اور خواجہ آصف دنیا کے تقریباً ہر موضوع کے حوالے سے ایک دوسرے سے شدید اختلافات کے حامل ہیں لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ افغانستان کے معاملے پر دونوں کا موقف ایک ہی لگتا ہے۔ امریکی افواج کے انخلا کے بعد عمران خان نے بطور وزیراعظم افغان طالبان کو ”غلامی کی زنجیریں توڑنے“ پر مبارک سلامت کے پیغامات برسرعام دیے تھے۔ خواجہ آصف ان دنوں عمران حکومت کے شدید مخالفین میں سر فہرست تھے۔ انہوں نے بھی ایک ٹویٹ کے ذریعے امریکی افواج کی افغانستان سے ذلت آمیز واپسی پر ایسے ہی پیغامات لکھے۔ لیکن آج کل وہ بطور وزیر دفاع افغانیوں کے ہیرو محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دے رہے ہیں۔ ایسے میں ہاتھ باندھ کر التجا کرتا ہوں کہ دونوں ملک ماضی کے اسیر رہنے کے بجائے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کریں جس کا دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ ہو۔ دونوں ممالک کے حکمرانوں کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے گھمنڈ سے آزاد ہونا پڑے گا ورنہ ہماری آنے والی نسلیں مذید کئی برس بھی امن وخوش حالی کو ترستی رہیں گی۔

Back to top button