کیا فوجی عدالتوں سے سزاپانے والے سویلینز دوبارہ ٹرائل بھگتیں گے؟

9 مئی کے ملزمان کی سزاؤں کے بعدسے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کا معاملہ قانونی و سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے جبکہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سامنے بھی یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ سویلین کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں چل سکتا ہے یا نہیں؟ عدالتی سماعت کے دوران فوجی عدالتوں میں سویکینز کے ٹرائل کے حق اور مخالفت میں دلائل کا سلسلہ جاری ہے تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر سپریم کورٹ سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو خلاف آئین قرار دے دیتی ہے تو کیا فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ تمام افراد کے ٹرائل ازسر نو انسداد دہشتگردی عدالتوں میں شروع ہو جائیں گے؟ اور کیا جن یوتھیوں کو سزاؤں کے بعد معافی مل چکی ہےکیا وہ دوبارہ عدالتی کارروائی بھگتیں گے؟

اس حوالے سے ماہر قانون کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحی کا کہنا تھا کہ جن 19 افراد کو فوجی عدالتوں سے سزاسنائے جانے کے بعد معافی مل چکی ہے ان کے مقدمات تو کسی صورت دوبارہ نہیں کھل سکتے البتہ جن لوگوں کے ٹرائل ابھی زیر التوا ہیں ان کے مقدمات فوجی عدالتوں سے انسداد دہشتگردی عدالتوں میں منتقل ہو جائیں گے۔کرنل انعام نے کہا کہ ان کی ذاتی رائے میں سویلین کے ٹرائل سویلین عدالتوں میں ہی ہونے چاہییں۔کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحیم نے بتایا کہ آئینی بینچ سے فوجی عدالتوں کے خلاف فیصلہ آیا تو مقدمات انسداد دہشت گردی عدالتوں کو منتقل ہو جائیں گے جہاں ازسر نو ٹرائل ہوگا۔کرنل انعام الرحیم نے سوال اٹھایا کہ بعض معاملات میں ہمیں شفافیت نظر نہیں آتی۔ انہوں نے اس بات کی ایک واضح مثال دیتے ہوئے کہا کہ عوامی مسلم لیگ کے چیئرمین شیخ رشید احمد بھی تو جی ایچ کیو حملہ کیس میں ملزم ہیں تو پھر ان کا مقدمہ فوجی عدالت سے انسداد دہشتگردی عدالت کیسے منتقل ہوا اور یہی چیز ہمیں خدیجہ شاہ کے مقدمے میں بھی نظر آتی ہے۔کرنل انعام نے سوال اٹھایا کہ کس بنیاد پر یہ تقسیم کی گئی کہ کونسا مقدمہ فوجی عدالت میں چلے گا اور کونسا سول عدالت میں۔ پھر خدیجہ شاہ اور شیخ رشید ضمانت پر رہا ہیں جبکہ فوجی عدالتوں میں تو ضمانت پر رہائی کا تصور بھی نہیں۔خدیجہ شاہ اسی ضمانت پر رہائی کے بعد امریکا بھی گئیں جہاں انہوں نے انسانی حقوق پر تقریر کی اور پھر چیف جسٹس صاحب نے انہیں جیل اصلاحات کمیٹی کی رکن بنا دیا۔

فوجی عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کرنے والے ایک اور وکیل عمران شفیق ایڈووکیٹ نے بھی اس بات کی تائید کی کہ آئینی بینچ اگر فوجی عدالتوں کے خلاف فیصلہ دیتا ہے تو مقدمات انسداد دہشت گردی عدالتوں کو منتقل ہوں گے لیکن معافی پانے والوں کے مقدمات دوبارہ نہیں کھل سکتے۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ معافی پانے والوں کو بھی سزا یافتہ ہونے کے نتائج بھگتنے پڑیں گے جیسا کہ وہ سرکاری ملازمت اختیار نہیں کر سکتے اور انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے کیونکہ ان کی سزا معاف ہوئی ہے سزا کا فیصلہ ختم نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک یہ فیصلہ کسی اعلیٰ عدالت سے کالعدم نہ ہو جائے تو معافی ملنے کے باوجود وہ سزایافتہ ہی رہیں گے۔

خیال رہے کہ 13 دسمبر 2024 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے 9 مئی واقعات میں ملوث 85 افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں چلنے والے مقدمات کے فیصلے سنانے کی اجازت دی تھی جبکہ اس سے قبل 23 اکتوبر 2023 کو مستعفی جج، جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو خلاف قانون قرار دیا تھا۔

تاہم 13 دسمبر 2023 کو جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں قائم بینچ نے 23 اکتوبر کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے جزوی طور پر سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی اجازت اس شرط کے ساتھ دی تھی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے تک فوجی عدالتوں میں فیصلے نہیں سنائے جائیں گے۔ تاہم 28 مارچ 2024 کو جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں قائم ایک بینچ نے فوجی عدالتوں کو جزوی طور پر ایسے افراد کے فیصلے سنانے کی اجازت دی تھی جن کی رہائی عید سے پہلے ممکن ہو۔

یاد رہے کہ 9 مئی کے شرپسندانہ واقعات میں ملوث کل 103 افراد فوجی تحویل میں لیے گئے ہیں۔ اس کے بعد اب تک 85 افراد کے فیصلے سنائے جا چکے جن میں سے 19 افراد کو معاف کر دیا گیا جبکہ باقی مجرمان کی معافی کی درخواستیں زیر التوا ہیں۔

Back to top button