ججز کی تنخواہوں میں اضافہ عوام پر بجلی بن کر کیوں گرا ہے ؟
معروف لکھاری اور تجزیہ کار عمار مسعود نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز کی تنخواہوں میں ہاؤس رینٹ یا جوڈیشل الاونس کے نام پر 12 سے 14 لاکھ روپے کے اضافے کا حکومتی اعلان مزدور طبقے پر بجلی بن کر گرا ہے جس کی کل آمدنی کم از کم 37 ہزار روپے مقرر ہے جو اسے کام ختم کرنے کے بعد ملتی ہے۔ اس کم ترین تنخواہ میں اس نے گھر بھی چلانا ہے، خاندان کو روٹی بھی کھلانی ہے، اپنے بچے بھینپڑھانے ہیں، دوا بھی خریدنی ہے، اور بجلی، پانی اور گیس کا بل بھی ادا کرنا ہے۔
اپنی تازہ تحریر میں عمار مسعود کہتے ہیں، المیہ یہ ہے کہ ان ججوں کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا ہے جن کے ہاں لاکھوں مقدمے دہائیوں سے فیصلے کے منتظر ہیں۔ تاریخ اس بات پر قہقے ضرور لگائے گی کہ کام نہ کرنے والوں پر نوٹوں کی یہ برسات شاید چشم فلک نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ حق یہ ہے کہ ن لیگ نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس سیاسی رشوت کے بعد عدالتی فیصلے ان کے حق میں آیا کریں گے۔ یہی کچھ جسٹس میاں ثاقب نثار کو ترقی دیتے ہوئے بھی سوچا گیا تھا۔ یعنی اسی سوارخ سے نون لیگ کو پہلے بھی ڈسا گیا تھا۔ میں نجومی تو نہیں لیکن یاد رکھیے کل کو ن لیگ کا تختہ انہی ججز میں سے کوئی ایک الٹے گا جس کی تنخواہ میں عوام کا خون چوس کر ہوشربا اضافہ کیا گیا ہے۔
عمار مسعود کہتے ہیں، حکومتوں کو سیاسی مقدمات کے نتائج سے بے پرواہ ہو کر یہ سمجھنا چاہیے کہ 20 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لینے والے ججز جب عوام کو کوڑی کا بھی انصاف نہیں دیتے تو انہیں انعام کی بجائے سزا ملنی چاہیئے۔ انکا کہنا ہے کہ اگر تو اس ملک میں انصاف کا سمندر ٹھاٹیں مار رہا ہوتا، شیر اور بکری ایک گھاٹ ہی پر پانی پی رہے ہوتے، میزان عدل کے دونوں پلڑے برابر ہوتے، قاضی شہر کے قصیدے پڑھے جارہے ہوتے اور شاہ و گدا کے حقوق یکساں ہوتے تو اس دیس کے منصف و انصاف کا شہرہ دنیا بھر میں ہوتا۔ ایک زمانہ ہمارے ایوان عدل کی مثالیں دے رہا ہوتا۔ ہم عدل کی کسوٹی پر اقوام عالم میں سب سے ممتاز ہوتے تو بے شک آپ قاضیوں ہی نہیں ان کی نسلوں کو خلعت فاخرہ سے نوازتے، ان پر اشرفیاں لٹاتے، ان کے لیے خزانوں کا منہ کھول دیتے۔ کسی میں ہمت نہ ہوتی کہ حکومت کا گریبان پکڑے، کسی میں جرأت نہیں ہوتی حکومت وقت سے کوئی سوال کرے۔
عمار مسعود کہتےنہیں کہ اگر تو قومی خزانہ اشرفیوں سے معمور ہوتا، معاشی ترقی اپنے عروج پر ہوتی۔ ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھ چکا ہوتا، ایک فلاحی مملکت تخلیق ہو چکی ہوتی، آجیر اور اجیر کی زندگی خوش حال ہوتی، کراچی اسٹاک، امریکی مارکیٹ کو آنکھیں دکھا رہی ہوتی، آئی ایم ایف گھٹنوں کے بل ہم سے تعاون کا خواستگار ہوتا، ورلڈ بینک ہمارے در کے چکر لگا رہا ہوتا، دنیا کی مضبوط معیشتوں میں ہمارا شمار ہوتا، ہر شہر، قصبے اور گاؤں میں یونیورسٹی، ہسپتال اور سڑک بن چکے ہوتے، تو پھر آپ ججز کی تنخواہ بڑھاتے تو بات سجتی بھی اور بنتی بھی۔
عمار مذید کہتےنہیں کہ اگر تو اس ملک میں غربت ختم ہو چکی ہوتی، مزدور نان شبینہ کا محتاج نہ ہوتا، کم سے کم اُجرت اطمینان بخش ہوتی، بجلی کے نرخ کم ہو چکے ہوتے، گیس کی فراہمی یقینی بن چکی ہوتی، بیماروں کو مفت ادویات فراہم ہو رہی ہوتیں، بھوکوں کو روٹی مل چکی ہوتی، ناداروں کی جھولی بھر چکی ہوتی، بھوک مٹ چکی ہوتی، مفلسی دَم توڑ چکی ہوتی، تعلیم سے محروم اڑھائی کروڑ بچے اسکول تک پہنچ چکے ہوتے، لغت و فرہنگ ست لفظ افلاس حرف غلط کی طرح مٹ چکا ہوتا، بنیادی خوارک سب کو مل رہی ہوتی، صحت کی سہولیات سب کی دسترس میں ہوتیں تو آپ ججز کی تنخواہیں چاہے جتنی مرضی بڑھا دیتے کوئی سوال نہ کرتا، کوئی جواز نہ پوچھتا، کوئی اختلاف نہ کرتا۔
سپریم کورٹ ججز کی 20 لاکھ تنخواہ عوامی تنقید کی زد میں
عمرا مسعود کے مطابق آگر تو ہمارے پیارے پاکستان میں نچلی عدالتوں کی حالت بہتر ہو چکی ہوتی، التوا میں پڑے لاکھوں مقدمات کا فیصلہ ہو چکا ہوتا، سپریم کورٹ میں 60 ہزار مقدمات نمٹائے جا چکے ہوتے، سائلیں انصاف کی بروقت فراہمی پر جشن منا رہے ہوتے، عدالتوں میں رشوت کا کاروبار بند ہو چکا ہوتا، اںصاف دینے والے کسی دباؤ میں آئے بغیر فیصلے سنا رہے ہوتے، جلیوں میں تمام کے تمام بے گناہ قیدی رہا ہو گئے ہوتے ۔ عدالتوں میں انسانوں کی تذلیل پر قدغن لگ چکی ہوتی، ہر شخص نظام انصاف سے مطمئن ہوتا، ہر شخص قاضی شہر کے قصیدے پڑھ رہا ہوتا اور حکومت ان کی تنخواہوں میں بے پناہ اضافہ کرتی تو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔
عمار کہتے ہیں کہ ایک زمانہ تھا جب وکلا نے نعرہ لگایا تھا کہ ’ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘۔ لیکن اس وقت کسی نے ہمیں نہیں بتایا تھا کہ ریاست صرف ججز کے لیے سگی ماں جیسی ہو گی اور غریب عوام سے اس کا رویہ سوتیلی ماں کا سا ہوگا۔