سپریم کورٹ ججز کی 20 لاکھ تنخواہ عوامی تنقید کی زد میں

سپریم کورٹ کے ججوں کو ملنے والے ہاؤس رینٹ اور جوڈیشل الاؤئنس میں اضافہ عوامی حلقوں میں زیر بحث ہے۔عدالت عظمی کے ججز کیلئے گھر کا کرایہ ساڑھے تین لاکھ روپے کرنے جب کہ جوڈیشل الاؤنس دس لاکھ روپے سے بڑھانے کی وجہ سے سوشل میڈیا پر حکومت اور اعلی عدلیہ شدید تنقید کی زد میں ہے۔حکومت کی جانب سے ان الاؤنسز میں اضافے کا اعلان تو تین روز قبل کیا گیا تھا تاہم اس حوالے سے غصہ اور تنقید اب بھی سوشل میڈیا پر جاری ہے۔

سپریم کورٹ کے ججز کی مراعات میں اضافے کے حوالے سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق ججز کو ہاؤس رینٹ کی مد میں ملنے والے الاؤنس کو 68 ہزار روپے سے بڑھا کر ساڑھے تین لاکھ روپے جب کہ جوڈیشل الاؤنس جو پہلے چار لاکھ 28 ہزار روپے تھا، اسے اب بڑھا کر دس لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر صارفین پاکستان کی ابتر معاشی حالت کو سامنے رکھتے ہوئے ان الاؤنسز میں اضافے پر سیخ پا نظر آئے۔اس حکومتی فیصلے کے بعد عدلیہ پر ہونے والی تنقید تو ایک طرف لیکن بہت سے لوگ اس فیصلے کی ٹائمنگ پر سوال اٹھاتے ہوئے اپنے تبصروں میں یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ حکومت ایسا عدلیہ کو نوازنے کےلیے کر رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر یہ سوال بھی زیر بحث ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز کو حکومت کی جانب سے ماہانہ تنخواہ کے علاوہ کیا کیا سہولیات اور مراعات ملتی ہیں؟ اور سپریم کورٹ کا ایک جج پاکستانی عوام کو ماہانہ کتنے لاکھ میں پڑتا ہے۔

مبصرین کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تنخواہ اس وقت تقریباً ساڑھے 12 لاکھ روپے ہے۔وزارت انصاف و قانون کے گذشتہ برس جولائی میں جاری ہونے والے نوٹی فکیشن کے مطابق سپریم کورٹ کے باقی ججز کی ماہانہ تنخواہ تقریباً گیارہ لاکھ روپے بنتی ہے۔

تاہم یہاں یہ سوال بھی پیداہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز کو تنخواہ کے علاوہ کیا مراعات ملتی ہیں؟’سپریم کورٹ ججز لیو، پینشن اینڈ پریولیجز آرڈر 1997‘ کے مطابق

سپریم کورٹ کے ججز کو ماہانہ تنخواہ کے علاوہ سرکاری گھر بھی ملتا ہے۔ سرکاری گھر نہ ملنے کی صورت میں سپریم کورٹ کے جج کو کرائے کے گھر میں رہنے پر ماہانہ کرائے کی مد میں الاؤنس دیا جاتا ہے۔

گھر کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان ججز کے گھر میں استعمال ہونے والی بجلی، گیس اور پانی کا بل بھی حکومتی خزانے سے ادا کرتی ہے۔

اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے جج کو سرکاری گاڑی کے ساتھ ماہانہ 400 لیٹر پیٹرول بھی ملتا ہے۔

سپریم کورٹ کے ججز کو انکم ٹیکس سے بھی استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔ججز کو روزمرہ کے اخراجات کے لیے الاؤنس جب کہ اس کے ساتھ جوڈیشل الاؤنس بھی دیا جاتا ہے۔

ریٹائرمنٹ پر سپریم کورٹ کے جج کو پینشن کے علاوہ یہ سہولت بھی ملتی ہے کہ وہ سرکاری خرچ پر اپنی مرضی کا ایک ڈرائیور یا ملازم بھی رکھ سکتا ہے تاہم جج کی موت کے بعد ان کی بیوہ کو بھی یہ سہولیات حاصل ہوتی ہیں۔

تاہم اب حکومت نے مراعات یافتہ سپریم کورٹ کے ججز کے ہاؤس رینٹ اور جوڈیشل الاؤئنس میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔

اس حوالے سے صحافی غریدہ فاروقی کا تبصرہ کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ’اس ملک میں یہ عجیب مذاق ہے۔ غریب کے پاس کھانے کو کچھ نہیں، مڈل کلاس کی تنخواہیں نہیں بڑھتیں، ملک میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے، قابل نوجوانوں کے پاس روزگار نہیں مگر تقریباً ہر سال ججوں کی تنخواہوں اور مراعات میں لاکھوں کا اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔‘انھوں نے عدلیہ پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’کسی میں تو اتنی اخلاقی جرات ہونی چاہیے کہ لاکھوں کے اضافے سے انکار کر دے۔‘

ایک اور سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ پاکستان پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار ہے اور حکومت نے ججز کے گھروں کے کرائے میں مزید اضافہ کر دیا۔انھوں نے دعوی کیا کہ گھروں کا اتنا کرایہ 95 فیصد پاکستانیوں کی ماہانہ تنخواہ سے بھی زیادہ ہے۔آخر میں انھوں نے یہ سوال بھی کیا کہ ’کرایے کی مد میں ساڑھے تین لاکھ روپے کون ادا کرتا ہے؟‘

آئینی ترمیم کے بعد عمران خان کا فوجی تحویل میں جانے کا امکان

عدنان عالم نے ججز کو ملنے والی نئی مراعات اور دیگر الاؤنسز کا حساب کتاب کرتے ہوئے لکھا کہ ’اس حساب سے ایک جج کی ماہانہ تنخواہ 20 لاکھ روپے سے زیادہ ہو جائے گی۔‘

صارف عابد چیمہ نے لکھا کہ ’ججوں کے لیے گھر کے کرائے کی مد میں الاؤنس کو 65 ہزار روپے سے بڑھا کر ساڑھے تین لاکھ روپے کر دیا گیا جبکہ جوڈیشل الاؤنس کو دس لاکھ روپے سے زیادہ کر دیا گیا۔‘انھوں نے مزید لکھا کہ ’یہ بھی ایسے وقت میں کیا گیا، جب پاکستانی شہری بدترین معاشی حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔‘

ایک اور صارف نے لکھا کہ ’اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ حکومت کی ترجیحات کیا ہوتی ہیں۔ غریب غربت کے ہاتھوں مر جائے ان کو فرق نہیں پڑتا لیکن امیر کو مزید نوازتے جاؤ، بھلے عوام کے منہ سے نوالہ چھین کر ہی کیوں نہ دینا پڑے۔‘

Back to top button