عمران خان کی حمایت میں وائرل ہونے والی ٹرمپ کی ویڈیو جعلی نکلی
سوشل میڈیا پر چند ہفتوں سے ڈونلڈ ٹرمپ کی آواز میں وائرل ہونے والی ایک ویڈیو نے پاکستان میں ان کے فالوورز کے لیے کپتان کی رہائی کی جو امیدیں روشن کی تھی وہ اس ویڈیو کے جعلی ثابت ہو جانے کے بعد اب تیزی سے بجھنا شروع ہو گئی ہیں۔ یہ ویڈیو تب زیادہ وائرل ہوئی جب امریکی صدارتی الیکشن اپنے آخری ہفتے میں داخل ہوا تھا اور اس سے زیادہ تر بیرون ملک موجود پاکستانیوں نے وائرل کیا۔ اس ویڈیو پر نہ صرف سوشل میڈیا صارفین نے بلکہ تحریک انصاف کے کئی مرکزی رہنماؤں نے بھی یقین کر لیا تھا اور ٹی وی ٹاک شوز میں اس کے حوالے دینا شروع کر دیے تھے۔ تاہم اب ثابت ہو گیا ہے کہ یہ ویڈیو جعلی تھی اور ٹرمپ کی آواز میں عمران کی حمایت میں سنائی دینے والی موصوف کی تقریر بھی آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے تخلیق کی گئی تھی۔
ٹرمپ کی جعلی تقریر میں انہیں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ’ہیلو میرے پاکستانی امریکن دوستو۔ اگر میں صدارت الیکشن جیت گیا تو میرا آپ لوگوں سے وعدہ ہے کہ میں عمران خان کی جلد از جلد جیل سے رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کروں گا۔ وہ میرا دوست ہے۔ مجھے اُس سے محبت ہے۔ میں دوبارہ اُس کو برسرِاقتدار لانے کی پوری کوشش کروں گا۔ ہم دونوں باہمی تعلقات کی مضبوطی کے لیے مل جل کر دوبارہ سے کام کریں گے۔عمران خان زندہ باد۔‘
لیکن اب پتہ چلا ہے کہ 5 نومبر سے ٹک ٹاک پر گردش کرنے والی اس ’تاریخی‘ ویڈیو کو بِنا پلکیں جھپکائے دیکھنے والے لگ بھگ 25 لاکھ لوگوں کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے ماموں بنایا گیا۔
تاہم زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ کپتان کے یوتھیے کئی ہفتوں سے اس ویڈیو کو وائرل کرتے ہوئے جشن منا رہے تھے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ بھول گئے کہ ماضی قریب میں عمران خود بھی اور اپنے یوتھیوں سے بھی "ایبسولوٹلی ناٹ” کے نعرے لگواتے رہے ہیں۔ یاد ریے کہ اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے فارغ ہونے والے پہلے پاکستانی وزیراعظم بننے کے بعد عمران نے امریکہ پر اہنے خلاف سازش کا کرنے الزام عائد کر دیا تھا۔ اس کے بعد اسلام اباد میں ایک جلسے کے دوران عمران نے ایک مبینہ امریکی سائفر بھی لہرایا تھا اور یہ دعوی کیا تھا کہ اس میں ان کی حکومت کے خاتمے کی دھمکی دی گئی ہے۔ تاہم اچھی بات یہ ہے کہ کپتان نے موقف بدلنے کے حوالے سے اپنی یوتھیوں کی اچھی ٹریننگ کی ہے جو اصولی معاملات پر یوٹرن لینے کو برا نہیں سمجھتے۔
گزشتہ ہفتے جب ٹرمپ کی عمران کی حمایت میں وائرل ہونے والی ویڈیو کے حوالے سے خان صاحب کی ہمشیرہ علیمہ خان سے سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کسی غلط فہمی کی بنیاد پر الٹا یہ سوال کر دیا کہ ’کیا ٹرمپ ہمارا ابا لگتا ہے؟‘
ویسے اس ویڈیو کی شکل میں فالتو کی فنکاری کی یوں ضرورت نہیں تھی کہ سب جانتے ہیں کہ امریکہ میں خان لابی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی لابی سے زیادہ فعال ہے۔ اس نے امریکی کانگریس کے 62 اصلی ڈیموکریٹ ارکان سے گذشتہ ماہ ہی صدر بائیڈن کے نام ایک اصلی خط لکھوا لیا تھا جس میں خان صاحب کی رہائی کےلیے اثر و رسوخ استعمال کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ ایمنسٹی سمیت کئی سرکردہ انسانی حقوق تنظیمیں بھی پاکستان کے حالات پر بقول دفترِ خارجہ ’بے بنیاد تبصرہ‘ کرتی رہتی ہیں۔
کیا ٹرمپ کی جیت کے بعد امریکی جہاز عمران خان کو لینے آئے گا؟
مگر واشنگٹن میں ہوا کا رُخ بدل چکا ہے۔ کانگریس کے دونوں ایوان ریپبلیکنز کے کنٹرول میں ہیں۔ خارجہ پالیسی کے مینیو میں مشرقِ وسطیٰ، ایران، یوکرین، چین، بھارت، غیرقانونی تارکینِ وطن اور ماحولیات سب سے اُوپر ہیں۔ پاکستان فی الحال نئے امریکی سٹرٹیجک مینیو میں اگر ہے بھی تو کہیں بہت نیچے ہے تاوقتیکہ پاکستان کے پڑوس میں کوئی اتنی بڑی واردات ہو جائے کہ ہماری فوجی خدمات کی امریکہ کو پھر سے ضرورت پڑ جائے۔
جس طرح ٹرمپ کی آمد کے بعد امریکہ میں وائٹ ہاؤس، کانگریس اور قدامت پسند ججوں سے بھری سپریم کورٹ ایک پیج پر آ گئے ہیں، اِسی طرح پاکستان میں 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری دینے والی تابعدار پارلیمنٹ، نوتشکیل عدلیہ اور سیاسی و قومی استحکام کی ضامن فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی ایک پیج پر ہیں۔بالخصوص مسلح افواج کے سربراہوں کی مدتِ عہدہ تین سے بڑھا کر پانچ برس کرنے اور مزید پانچ برس کی توسیع کا راستہ کھلا رکھنے کے قانون کی منظوری کے بعد اب جنرل ناصر منیر کے اپنے عہدے پر سال 2032 تک برقرار رہنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔