تحریک انصاف مسلسل اپنی سٹریٹ پاور کیوں کھو رہی ہے؟

پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے بانی ہونے کے دعویدار عمران خان مسلسل غیر سیاسی فیصلے کیے چلے جا رہے ہیں جن کے نتیجے میں پی ٹی آئی نہ صرف اپنی سٹریٹ پاور کھو رہی ہے بلکہ پارلیمانی سیاست میں بھی غیر متعلق ہوتی جا رہی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جیل میں ہونے کے باوجود عمران خان ہی پارٹی کے تمام چھوٹے بڑے فیصلے کرنے پر مصر ہیں حالانکہ ان کی حالت ایسی نہیں کہ وہ صائب فیصلوں کے متحمل ہو سکیں۔

ایسا ہی ایک تازہ ترین فیصلہ عمران خان کا ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا ہے۔ چنانچہ تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی نے خان کی سرزنش پر ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ تبدیل کر دیا ہے۔ بانی تحریک انصاف نے پہلے ہی ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ لیکن تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی یہ سمجھتی تھی کہ پارٹی کو میدان خالی نہیں چھوڑنا چاہیے اور ضمنی انتخابات میں حصہ لینا چاہیے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 9 مئی کے مقدمات میں سزاؤں کے بعد جو ارکان نا اہل ہوئے تھے وہ بھی بائیکاٹ کے حق میں نہیں تھے اور اپنے اہل خانہ کو ٹکٹ دلوا کر ضمنی انتخابات میں حصہ لینا چاہتے تھے۔ لیکن سیانے خان نے انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی۔

اس سے پہلے جب سیاسی کمیٹی نے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو علیمہ خان نے یہ شور مچا دیا کہ بانی تحریک انصاف کے احکامات سے روگردانی کی جا رہی ہے حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ نااہل قرار دیا جانے والا کوئی بھی رکن اسمبلی اپنا انتخابی حلقہ خالی نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ حالیہ جیل ملاقات کے دوران علیمہ خان نے اپنے بھائی کو بتایا کہ سیاسی کمیٹی نے آپکی ہدایات کے برعکس ضمنی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کر دیا ہے۔ آپ نے بائیکاٹ کا حکم دیا تھا لیکن سیاسی کمیٹی کہتی ہے کہ ہم بانی کے حکم کو نہیں مانتے، آپ مائنس ہو گئے ہیں۔ آپ کے فیصلوں کو نہ ماننے کی روایت شروع ہو گئی ہے۔ یقیناً بانی کو یہ سب اچھا نہیں لگا ہوگا اور انھوں نے جلال میں آ کر اعلان کر دیا کہ وہی ہو گا جو میں کہوں گا ۔ یہ میری پارٹی ہے کسی اور کی نہیں۔

علیمہ خان سے ملاقات سے پہلے عمران خان نے پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کو عمر ایوب خان کی ناہلی کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نامزد کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن اسے بھی سیاسی کمیٹی نے مسترد کر دیا تھا۔ علیمہ خان نے اپنے بھائی کو بتایا کہ سیاسی کمیٹی چاہتی ہے کہ تحریک انصاف میں سے کسی کو قائد حزب اختلاف بنایا جائے۔ خان صاحب کو سیاسی کمیٹی کی اپنے احکامات سے یہ روگردانی بھی پسند نہیں آئی۔ ویسے بھی جب کوئی لیڈر اپنی پارٹی میں خود کو مطلق العنان سربراہ سمجھتا ہو تو وہ اختلاف کرنے والوں کے بارے میں یہی سوچتا ہے کہ ان کی اتنی جرات کہ میرے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کریں۔ چنانچہ بانی نے موقع پر ہی حکم صادر کر دیا کہ محمود خان اچکزئی ہی قائد حزب اختلاف ہونگے اور ان کی جماعت کے تمام لیڈر اچکزئی کے ماتحت ہوں گے۔

یاد رہے کہ یہ وہی اچکزئی ہیں جن کا ماضی میں عمران خان چادر اوڑھ کر مذاق اڑایا کرتے تھے اور انہیں فراڈیا اور جوکر قرار دیتے تھے۔  بات یہی ختم نہیں ہوئی۔ علیمہ خان نے بھائی کو بتایا کہ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے پارلیمینٹ کی کمیٹیوں کے چیئرمین اور ممبران بھاری مراعات لے رہے ہیں۔ تمام چیئرمین سرکاری گاڑیاں اور مراعات استعمال کر رہے ہیں۔ وہ ایوان کی کمیٹیوں میں فکس میچ کھیل رہے ہیں۔ وہ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں روزانہ حکومت کے نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر خوش گپیاں لگاتے ہیں حالانکہ بانی جیل میں ہیں۔ چنانچہ بانی نے تمام کمیٹیوں سے مستعفیٰ ہونے کا اعلان کر دیا۔۔ عمران کا خیال ہے کہ یہ فیصلے کر کے انہوں نے خود کو سیاست سے مائنس کرنے کے گریٹ پلان کو ناکام بنا دیا ہے۔ تاہم سیاسی مبصرین کے مطابق عمران نے ان فیصلوں کے ذریعے نہ صرف پارٹی کو مزید کمزور کیا ہے بلکہ اسے سیاسی طور پر مزید غیر متعلق کر دیا ہے۔

سیاسی تجزیہ کار سوال کرتے ہیں کہ تحریک انصاف کے نا اہل ہونے والے ارکان کی سیٹوں پر ضمنی انتخاب میں حصہ نہ لینے سے کس کو فائدہ ہوگا۔ کیا تحریک انصاف کو اس بائیکاٹ سے کوئی فائدہ ہوگا۔  اس سے حکومت کو فائدہ ہوگا۔ حکومت کو ضمنی انتخابات میں واک اوور مل گیا ہے۔ ضمنی انتخاب میں حکومتی امیدواروں کی جیت آسان ہوگئی ہے۔  اسی طرح قائمہ کمیٹیوں سے مستعفیٰ ہونے سے بھی فی الحال نظام کو کوئی خطرہ نہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہمارا پارلیمانی نظام تحریک انصاف کے استعفوں کی سیاست کا عادی ہو چکا ہے۔ 2014 میں بھی اس نے استعفیٰ دیے تھے۔ پھر 2022 میں بھی استعفیٰ دیے تھے۔ اس لیے استعفیٰ کوئی نئی بات نہیں کہ حکومتی اتحاد گھبرا جائے۔ لیکن مبصرین کہتے ہیں کہ اصل سوال کے پی حکومت کا ہے۔ کیا وہ لوگ حکومت چھوڑیں گے۔ یاد رہے کہ کے پی واحد صوبہ ہے جہاں تحریک انصاف کے سینکڑوں مفرور چھپے ہوئے ہیں ایسے میں اگر گنڈا پور حکومت گئی تو انکے لیے پاکستان میں کوئی محفوط جگہ نہیں رہے گی۔

Back to top button