انڈیا پاکستان کشیدگی کے دوران بلیک آؤٹ کیوں کیا جا رہا ہے؟

پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران فضائی حملوں میں شہری اور فوجی تنصیبات کو دشمن کی ممکنہ فضائی بمباری سے بچانے کے لیے دونوں ممالک کے مختلف شہروں اور مخصوص علاقوں میں بجلی کی بندش، یعنی ’بلیک آؤٹ‘ کا سلسلہ جاری ہے۔

پاکستان کی اگر بات کی جائے تو رات کے وقت راولپنڈی کے مختلف علاقوں خصوصاً بحریہ ٹاؤن، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی یعنی ڈی ایچ اے اور کینٹ کے علاقوں میں عارضی طور پر غیر ضروری لائٹس بند رکھی جا رہی ہیں۔ اسی طرح وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی رات کے اوقات میں بلند عمارات یا کُھلے علاقوں میں روشن بتیوں کو بجھانے کی ہدایات دی گئی ہیں تاکہ یہ روشنی دشمن کا نشانہ نہ بن جائے۔انتظامیہ کی جانب سے راولپنڈی اور اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں اعلانات کے ذریعے شہریوں سے اپیل کی گئی کہ وہ اپنے گھروں اور اطراف میں غیر ضروری روشنیاں بند رکھیں۔بجلی سپلائی کرنے والے اداروں کو بھی بعض مقامات پر خصوصی ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ مخصوص علاقوں میں بجلی کی فراہمی معطل رکھیں۔

راولپنڈی اور اسلام آباد ہی نہیں، بلکہ سرحدی علاقوں جیسے کہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد، پنجاب کے شہروں سیالکوٹ، مریدکے، بہاولپور اور دیگر حساس مقامات پر بھی احتیاطی تدابیر کے طور پر بلیک آؤٹ کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔مقامی آبادی کو اس حوالے سے ضروری ہدایات جاری کی گئی ہیں تاکہ وہ بھی ان حفاظتی اقدامات میں حصہ لے سکیں۔

تاہم موجودہ صورتحال میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جدید سیٹلائٹ اور ڈرون ٹیکنالوجی کے اس دور میں بلیک آؤٹ جیسے پرانے اقدامات آج بھی کیسے مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں؟ دفاعی ماہرین کے مطابق یہ اقدام آج بھی کئی حوالوں سے فائدہ مند ہے۔

 

دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق بلیک آؤٹ اور کیموفلاج اب بھی مؤثر سول دفاعی اقدامات ہیں۔ روایتی جنگ کی صورت میں رات کے وقت ان کا استعمال دشمن کے لیے اہداف کو بصری طریقے سے شناخت کرنے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے کیونکہ تاریکی میں دشمن اگر کسی مخصوص ہدف کو نشانہ بنانا چاہے، تو بلیک آؤٹ اور کیموفلاج اسے ایسا کرنے سے روکتے ہیں کیونکہ تاریکی میں اہداف کو پہچاننا اور نشانہ بنانا خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔‘

ماہرین کے مطابق ’آج اگرچہ سیٹلائٹ اور جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے لیکن بلیک آؤٹ جیسی تدابیر اب بھی کا مؤثر دفاعی حکمت عملی کا حصہ سمجھی جاتی ہیں۔‘ ان کا مزید کہنا ہے کہ ’جدید ٹیکنالوجی کے باوجود ایسی تدابیر کا مکمل طور پر بے اثر ہو جانا ممکن نہیں۔ خاص طور پر جب دشمن مکمل طور پر جدید پلیٹ فارمز استعمال نہ کر رہا ہو۔‘

تجزیہ کاروں کے بقول یہ سمجھنا کہ آج کی جنگیں مکمل طور پر ڈیجیٹل اور کمپیوٹرائزڈ ہو چکی ہیں، ایک غلط فہمی ہے۔ برصغیر میں دونوں ممالک ابھی بھی ہائی ٹیک ٹارگٹنگ سسٹمز کی تلاش میں تو ہیں، لیکن بہت سی کارروائیاں اب بھی پرانے طریقوں سے کی جاتی ہیں۔

 بھارت پاکستان کی شہری آبادی پر میزائل اور ڈرون حملے کیوں کر رہا ہے؟

 

دفاعی تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ انڈیا کے پاس اب بھی ایسے پلیٹ فارمز موجود ہیں جو ٹیکنالوجی کے تناظر میں مکمل طور پر جدید نہیں۔ ’چنانچہ یہ خطرہ موجود رہتا ہے کہ انڈیا جیسے ممالک کم لاگت والے طریقوں سے اہم اہداف کو نشانہ بنانے کی کوشش کرسکتے ہیں، خاص طور پر ایسے مقامات پر جو ان کے لیے سافٹ ٹارگٹس ہوں۔‘اس لئے بلیک آؤٹ جیسی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں کوئی نقصان نہیں، بلکہ یہ خطرے سے بچاؤ کا ایک ممکنہ موقع فراہم کرتی ہیں۔

 

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ بلیک آؤٹ دشمن کے حملوں سے کیسے بچاتا ہے؟

ماہرین کے مطابق رات کے وقت دشمن کے طیارے، ڈرون یا میزائل سسٹمز زمین پر موجود روشنیوں کو دیکھ کر اہداف کی نشاندہی کرتے ہیں۔سٹریٹ لائٹس، گھروں یا عمارتوں کی روشنیاں، اور انڈسٹریل ایریاز کی روشنی دشمن کو بتاتی ہے کہ اہم تنصیبات کہاں موجود ہیں۔ پورا علاقہ جب تاریکی میں ڈوبا ہو تو یہ اہداف چھپ جاتے ہیں۔

یہ طریقہ خاص طور پر تب زیادہ مؤثر ہوتا ہے جب حملے بغیر جی پی ایس گائیڈنس کے کیے جائیں کیونکہ اس صورت میں بصری شناخت ہی دشمن کا واحد ذریعہ رہ جاتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ’مکمل تاریکی دشمن کے لیے کنفیوژن پیدا کرتی ہے۔ دشمن کو یہ اندازہ نہیں ہو پاتا کہ شہری علاقہ کہاں ختم ہوتا ہے اور فوجی علاقہ کہاں سے شروع ہوتا ہے جس کے باعث اس کی ہدف کو نشانہ بنانے کی درستی متاثر ہوتی ہے۔‘

 

دفاعی ماہرین کے مطابق بلیک آؤٹ کوئی نئی حکمت عملی نہیں۔ دوسری جنگِ عظیم میں لندن، برلن اور دیگر یورپی شہروں میں شہریوں کو روزمرّہ بنیاد پر بجلی بند رکھنے کی ہدایات دی جاتی تھیں تاکہ فضائی حملوں سے بچا جا سکے۔اسی طرح 1965 اور 1971 کی پاک بھارت جنگوں کے دوران بھی کراچی، لاہور، سیالکوٹ اور دیگر اہم شہروں میں مکمل بلیک آؤٹس کیے گئے تاکہ دشمن کے ہوائی جہاز اہداف کی شناخت نہ کر سکیں۔

Back to top button