ضمانتوں کے باوجود عمران خان کی رہائی کا امکان کیوں نہیں؟

9 مئی 2023 کو ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملوں کے الزام میں عمران خان کے خلاف درج 8 مقدمات میں سپریم کورٹ کی جانب سے ان کی ضمانت دیے جانے کے باوجود بانی تحریک انصاف کی رہائی کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔ جہاں پی ٹی آئہ کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے یہ دعوی کیا ہے کہ عمران کی ضمانتوں سے ثابت ہو گیا ہے کہ ان کے خلاف درج مقدمات کھوکھلے ہیں، وہیں وزیراعظم کے سیاسی مشیر رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ کسی بھی کیس میں ضمانت کا یہ مطلب نہیں کہ کیس کا فیصلہ بھی ملزم کے حق میں آئے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ویسے بھی ابھی عمران خان کے خلاف 42 مذید مقدمات بھی چل رہے ہیں لہذا ان کی جیل سے رہائی کا کوئی امکان نہیں۔
حکومتی ذرائع کا بھی یہی کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کو عمران خان کی رہائی کے حوالے سے امیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہیے چونکہ اگلے کئی برس تک بانی تحریک انصاف جیل سے باہر نہیں آنے والے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کو 190 ملین پاؤنڈز کرپشن کیس میں 14 برس قید کی سزا ہو چکی ہے جو ابھی تک برقرار ہے، اس لیے تحریک انصاف والے اپنے ورکرز کو عمران کی رہائی کی جھوٹی امیدیں مت دلوائیں۔ ایک سوال کے جواب میں حکومتی ذرائع کا کہنا تھا کہ فوجی ترجمان کی جانب سے عمران کی ممکنہ معافی بارے حالیہ بیان کے بعد واضح ہو جانا چاہیے کہ فوجی قیادت کسی بھی صورت 9 مئی کے حملوں کے چیف منصوبہ ساز کو کوئی ریلیف دینے کے موڈ میں نہیں ہے۔
دوسری جانب اعلیٰ عدلیہ کی اعلان کردہ پالیسی کے مطابق، 190 ملین پاونڈز والے القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزاؤں کیخلاف اپیلوں کی سماعت کئی ماہ بعد اسلام آباد ہائی کورٹ میں متوقع ہے لہذا اس کیس میں بھی کسی فوری ریلیف کا امکان نہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ پہلے ہی واضح کر چکی ہے کہ یہ اپیلیں آئندہ سال نئے سسٹم کے تحت اپنی باری آنے پر سماعت کیلئے مقرر کی جائیں گی۔ یاد رہے کہ قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی یہ ہدایت دے چکی ہے کہ مختلف نوعیت کی اپیلوں کو ترجیح دی جائے، جس سے عمران خان کے کیس کی فوری سماعت کا معاملہ غیر اہم ہو چکا ہے۔
اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ میں 279؍ فوجداری اپیلیں زیرِ التواء ہیں۔ ان میں 63؍ اپیلیں سزائے موت کیخلاف کیسز، 73؍ اپیلیں عمر قید سے متعلق، 88؍ اپیلیں (جن میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی اپیلیں بھی شامل ہیں) سات سال یا اس سے زائد سزا سے متعلق ہیں، اور 55؍ اپیلیں ان قیدیوں کی ہیں جنہیں سات سال تک کی قید سنائی جا چکی ہے۔ القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی اپیل، جس میں انہیں 14؍ سال کی سزا سنائی گئی تھی، تیسرے گروپ میں آتی ہے۔ سب سے پرانا کیس، جو 2017ء کا سزائے موت کیخلاف اپیل کے حوالے سے ہے، تاحال سماعت کا منتظر ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی پالیسی کے مطابق ہر کیس کو اسی ترتیب سے مقرر کیا جاتا ہے جو رجسٹرار آفس کی فہرست میں اس کے دائر ہونے کی تاریخ کے حساب سے طے کی جاتی ہے۔ اس میں لائن توڑنے کی گنجائش نہیں۔ نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی (این جے پی ایم سی) کی واضح ہدایت یہ ہے کہ پرانے اور زیادہ سنگین سزاؤں والے کیسز پہلے نمٹائے جائیں۔
این جے پی ایم سی کے 9؍ دسمبر 2022ء کو ہونے والے 51 ویں اجلاس میں کیے گئے فیصلے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے 6؍ فروری 2023ء کو ایک ’’فکسیشن پالیسی‘‘ مرتب کی تاکہ زیرِ التواء مقدمات جلد نمٹائے جا سکیں۔ قیدیوں کی اپیلوں کے حوالے سے، این جے پی ایم سی کے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنی ’’فکسیشن پالیسی‘‘ میں شامل کیا۔ کمیٹی نے اعلیٰ عدالتوں سے کہا تھا کہ دو سال سے زائد عرصے سے زیرِ التواء اپیلوں اور اَن کنفرم سزائے موت پانے والے قیدیوں کے مقدمات جلد نمٹائے جائیں۔ کمیٹی نے مزید کہا تھا کہ قیدیوں کی پانچ سال سے زائد عرصے سے زیرِ التواء ایسی اپیلوں کے جلد فیصلے کیلئے خصوصی بنچ مقرر کیے جائیں اور ان مقدمات کو دو ماہ میں نمٹا دیا جائے۔
190 ملین پاؤنڈز کیس میں سزا کے خلاف عمران خان کی اپیل 31؍ جنوری 2025ء کو دائر کی گئی تھی۔ اس صورت حال میں، سرکاری ذرائع کو توقع ہے کہ القادر ٹرسٹ کیس میں دائر کردہ اپیل کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت اور اس کافیصلہ آنے سے قبل مختلف عدالتوں میں عمران خان کیخلاف کئی مقدمات کا فیصلہ ہو جائے گا۔
