تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کی بجائے سنگین مذاق کیوں کیا گیا؟

تنخواہ دار طبقے سے کل ادا کردہ ٹیکسوں کا 60 فیصد حصہ وصول کرنے والی حکومت نے وزیراعظم شہباز شریف کے بلندو بانگ دعووں کے برعکس تنخواہ دار طبقے کو کوئی بڑا ٹیکس ریلیف دینے کی بجائے صرف کاروائی ڈالتے ہوئے ماموں بنانے کی کوشش کی ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کردہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے ریلیف کی تجویز تو دی گئی ہے لیکن اس کی تفصیل میں جائیں تو یہ صرف گونگلووں سے مٹی جھاڑنے کے مترادف ہے۔
اس سے قبل کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے تسلیم کیا تھا کہ گذشتہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے نے بہت بوجھ اٹھایا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ اشرافیہ کو اس سوال کا جواب دینا ہو گا کہ انھوں نے کتنا ٹیکس دیا اور تنخواہ داروں نے کتنا؟
آئیے جانتے ہیں کہ اب تنخواہ دار طبقے کو تنخواہ کی کس سلیب میں کتنا ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ یکم جولائی 2025 سے شروع ہونے والے مالی سال کے بجٹ میں کُل ٹیکس سلیب چھ ہیں: تنخواہوں پر آئندہ مالی سال کے بجٹ میں جو نئے ٹیکس ریٹس تجویز کیے گئے ہیں ان کے مطابق پہلے سلیب میں ایسے افراد شامل ہیں جن کی تنخواہ چھ لاکھ روپے تک سالانہ ہے اور ان پر کوئی انکم ٹیکس لاگو نہیں ہو گا۔ دوسرا سلیب ایسے افراد کا ہے، جن کی سالانہ آمدن چھ لاکھ سے زیادہ مگر 12 لاکھ تک ہے۔ ایسے افراد کو چھ لاکھ سے زیادہ آمدن پر ایک فیصد ٹیکس دینا ہو گا۔ تیسرا سلیب سالانہ 12 لاکھ سے 22 لاکھ کی آمدن والے افراد کے لیے ہے۔ ان کے لیے چھ ہزار فکسڈ ٹیکس ہو گا جبکہ اس کے علاوہ 12 لاکھ سے زائد کی آمدن پر 11 فیصد ٹیکس لگے گا۔ چوتھا سلیب ان افراد کے لیے ہے جن کی سالانہ تنخواہ 22 لاکھ سے زیادہ اور 32 لاکھ تک ہے۔ انھیں سالانہ ایک لاکھ 16 ہزار فکسڈ اور 22 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 23 فیصد کے حساب سے ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔
پانچواں سلیب 32 لاکھ سے 41 لاکھ کی سالانہ آمدن والے افراد کے لیے ہے، جنھیں تین لاکھ 46 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 32 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 30 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ چھٹا سلیب 41 لاکھ سے زائد سالانہ آمدنی والے تنخواہ دار طبقے پر لگا ہے۔ ایسے شخص کو چھ لاکھ 16 ہزار فکسڈ انکم ٹیکس اور 41 لاکھ سے زائد آمدن پر 35 فیصد انکم ٹیکس دینا ہو گا۔
اب سوال یہ ہے کہ شہباز شریف حکومت نے تنخواہ دار طبقے کے ٹیکس میں کتنی کمی کی ہے اور کیا وہ موجودہ مہنگائی سے نمٹنے کے لیے کافی ہے۔ اگر آپ کی آمدن پچاس ہزار روپے ماہانہ ہے تو آپ کو کوئی انکم ٹیکس نہیں دینا ہو گا۔ تاہم اگر یہ آمدن 50 ہزار اور ایک لاکھ روپے ماہانہ کے درمیان ہے یعنی مثال کے طور پر80 ہزار ہے تو آپ کو ماہانہ 300 روپے ٹیکس دینا پڑے گا جو پہلے 1500 روپے تھا۔
ماہانہ ڈیڑھ لاکھ روپے آمدن کی صورت میں گذشتہ برس آپ کو 10 ہزار روپے ماہانہ ٹیکس ادا کرنا ہوتا تھا، تاہم اب یہ رقم کم ہو کر چھ ہزار روپے ماہانہ ہو جائے گی۔ دو لاکھ روپے ماہانہ کمانے والوں کو گذشتہ برس تک 19166 روپے ماہانہ ٹیکس دینا پڑتا تھا، تاہم اب انھیں 13500 روپے ماہانہ ٹیکس دینا پڑے گا۔ ایسے افراد جن کی ماہانہ آمدن ڈھائی لاکھ روپے ہے وہ اس سے قبل 31666 روپے ماہانہ ٹیکس کی مد میں دیا کرتے تھے، اب یہ 25 ہزار روپے ماہانہ انکم ٹیکس دیں گے۔ تین لاکھ ماہانہ کمانے والے افراد پہلے ماہانہ 45833 روپے انکم ٹیکس دیتے تھے جبکہ اب اس رقم پر ان کا ماہانہ ٹیکس 38833 روپے بنے گا۔
ساڑھے تین لاکھ کمانے والوں کا ماضی میں ماہانہ انکم ٹیکس 61250 روپے تھا، جو اب کم ہو کر 54250 روپے ہو جائے گا۔ یعنی ماہانہ سات ہزار اور سالانہ 84 ہزار کی بچت۔ ایسے افراد جن کی ماہانہ آمدن چار لاکھ روپے ہے وہ اس سے قبل 78750 روپے ماہانہ ٹیکس ادا کرتے تھے، اب ان کے لیے یہ رقم کم ہو کر 71750 روپے ہو جائے گی۔ یعنی اسے ماہانہ سات ہزار اور سالانہ 84 ہزار روپے کی بچت ہو گی۔