کیا بشریٰ بی بی 24 نومبر کے احتجاج کو کامیاب بنا پائیں گی؟
بشریٰ بی بی کی جانب سے 24 نومبر کے احتجاج کی حکمت عملی ترتیب دینے کی آڈیو لیک ہو جانے کے بعد اب پی ٹی آئی نے تصدیق کر دی ہے کہ آڈیو سابقہ خاتون اول کی ہے جو کہ احتجاج کامیاب بنانے کے لیے منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ یعنی تحریک انصاف نے باقاعدہ طور پر تصدیق کر دی ہے کہ بشری بی بی نے سیاست میں انٹری ڈال دی ہے اور ساری زندگی موروثی سیاست کی مخالفت کرنے والے عمران خان نے اپنی پارٹی کی باگ تیسری اہلیہ کو سونپ دی ہے۔
یاد رہے کہ 24 نومبر کے احتجاج کے حوالے سے پشاور میں پی ٹی آئی لیڈرشپ کے ایک اجلاس کی سربراہی کرنے والی بشریٰ بی بی کے ممبران اسمبلی سے خطاب کی اڈیو لیک ہو گئی ہے جس میں وہ کھلی دھمکیاں دے رہی ہیں، خیبر پختونخوا حکومت کی مشیر اور بشریٰ بی بی کی قریبی ساتھی مشال یوسفزئی نے تصدیق کی ہے کہ اڈیو میں سنائی دینے والی اواز بشری بی بی کی ہے جو کہ احتجاج کی حکمت عملی ترتیب دینے میں مصروف ہیں۔ جب مشال یوسفزئی سے پوچھا گیا کہ کیا بشریٰ بی بی احتجاج کو کامیاب بنانے کے لیے اجلاس اور دیگر منصوبہ بندی کر رہی ہیں، تو انہوں نے بتایا کہ ’ہاں وہی ساری منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔
بعد ازاں مشال یوسفزئی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ عمران خان نے 24 نومبر کے احتجاج کے لیے پورا لائحہ عمل بشریٰ بی بی کو دے رکھا ہے۔ پوسٹ میں لکھا گیا کہ ’پارٹی کی گراس روٹ لیول تک لائحہ عمل پہنچ چکا ہے اور جو جو عمران خان نے اڈیالہ جیل میں بشریٰ بی بی سے کہا تھا، حرف بہ حرف باہر پہنچ چکا ہے۔‘ مشال نے مزید لکھا کہ ’اس وقت بشریٰ بی بی جو بھی کر رہی ہیں، عمران خان کے احکامات اور ہدایات کے مطابق کر رہی ہیں اور یہ سیاست نہیں جہاد ہے۔‘ مشال کے مطابق: ’بشریٰ بی بی کی سیاست میں انٹری کی تمام باتیں من گھڑت ہیں۔ وہ عمران خان کی اہلیہ ہونے کے ناطے تمام فرائض پورے کر رہی ہیں ۔ یہ ان کا فرض بھی ہے اور حق بھی۔ خان صاحب کا پیغام اور دیا گیا لائحہ عمل ان کے احکامات کے مطابق بشریٰ عمران خان کے ذریعے من و عن پارٹی تک پہنچ چکا ہے۔‘
تحریک انصاف کی اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان علی امین گنڈاپور سمیت پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت پر اعتماد کھو چکے ہیں اور اسی لیے انہوں نے فائنل احتجاج کی کال دیتے ہوئے اس کو کامیاب بنانے کی ذمہ داری اپنی اہلیہ بشری بی بی کو سونپ دی ہے۔ تاہم پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کو سابقہ خاتون اول کی جانب سے طلب کرنے کے بعد کھلی دھمکیاں دینے سے تو احتجاج کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ دوسری جانب مشال یوسف زئی کا کہنا ہے کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لیے تیاریاں جاری ہیں اور احتجاج کے راستے میں حائل ممکنہ رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے پورا بندوبست کر لیا گیا ہے۔
پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت تحریک انصاف مکمل کنفیوژن کا شکار ہے کہ کس کی بات ماننے اور کس کی نہ مانے۔ ایک طرف نند اور بھاوج یعنی علیمہ خان اور بشری بی بی میں پارٹی پر قبضے کی لڑائی جاری ہے تو دوسری جانب عمران خان نے پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر خان اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان کو بالکل ہی کارنر کر دیا ہے اور احتجاج کے حوالے سے انہیں کسی قسم کی کوئی ذمہ داری نہیں سونپی گئی۔
بتایا جاتا ہے کہ اس وقت عمران کی تمام تر امیدوں کا مرکز علی امین گنڈاپور ہیں جن کی اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات بھی ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی ذرائع کا کہنا ہے کہ گنڈاپور ایک مرتبہ پھر اسٹیبلشمنٹ اور کپتان کے مابین مذاکرات کے لیے سہولت کاری کر رہے ہیں کیونکہ حکومت چاہتی ہے کہ 24 نومبر کا احتجاج ملتوی کر دیا جائے۔ تاہم حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے اور اگر انہوں نے احتجاج کی فائنل کال دے ہی دی ہے تو اب احتجاج کر کے بھی دکھائیں۔
خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کے مطابق 24 نومبر کی احتجاجی کال ملتوی کرنے کے حوالے سے اڑائی جانے والی خبریں بے بنیاد ہیں۔ اس معاملے پر حکومت کے ساتھ کسی قسم کے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ انکا کہنا تھا کہ ’جعلی حکومت‘ رکاوٹیں کھڑی کرنے کی حماقت نہ کرے کیونکہ ہم پہلے بھی رکاوٹیں عبور کر کے اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ ’کنٹینرز عوام کے جوش و جذبے کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوں گے۔‘
تاہم ابھی اس سوال کا جواب ملنا باقی ہے کہ 24 نومبر کے احتجاجی قافلے جب خیبر پختون خواہ سے روانہ ہوں گے تو ان کی قیادت بشری بی بی کر رہی ہوں گی یا علیمہ خان یا پھر یہ سب اکٹھے ہوں گے۔ پی ٹی آئی نے اس سے پہلے اسلام آباد میں احتجاج کی جو بھی کال دی اسکے جلوسوں کی قیادت علی امین گنڈاپور نے کی اور بھرپور ریاستی وسائل کا استعمال کیا۔ تب عمران خان اور بشریٰ بی بی جیل میں تھے لیکن بشریٰ بی بی کی رہائی کے بعد اب 24 نومبر کا احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس مرتبہ احتجاج ماضی سے الگ ہو گا؟ اور کیا 24 نومبر کے احتجاج کے لیے بشریٰ بی بی کی منصوبہ بندی کامیاب ثابت ہو سکتی ہے؟
پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے اس مرتبہ احتجاج کی منصوبہ بندی پارٹی قیادت کی بجائے عمران خان کے خاندان کے افراد کر رہے ہیں۔ پنجاب کو عمران خان کی بہن علیمہ خان نے سنبھالا ہے جب کہ خیبر پختونخوا کو متحرک کرنے کی ذمہ داری انکی اہلیہ بشری بی بی کی ہے۔
تاہم بشری بی بی نے پارٹی کے اراکین اسمبلی کو 5 اور 10 ہزار کے قافلے لانے کا جو ٹارگٹ دیا ہے وہ غیر حقیقی ہے اور پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔ پارٹی رہنماؤں کے مطابق پچھلی تین احتجاجی کالز ناکام ہو جانے کے بعد اگر اسلام اباد میں ٹوٹل 10 ہزار لوگ بھی اکٹھے ہو جائیں تو بہت بڑی بات ہوگی۔