مئی کے پہلے ہفتے میں’ریکارڈ توڑگرمی پڑے گی‘ یا شدید بارشیں ہونگی؟

امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے اپنی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ مئی کے پہلے ہفتے میں پاکستان میں گرمی کا نیا ریکارڈ قائم ہو سکتا ہے جبکہ پاکستانی محکمہ موسمیات نے 30 اپریل سے ملک کے بیشتر حصوں میں بارش کی پیشگوئی کی ہے۔
ان رپورٹس کی وجہ سےشہری شش و پنج میں پڑ گئے ہیں کہ آخر کون سی خبر درست ہے۔ کیا مئی کے پہلے ہفتے میں گرمی کا نیا ریکارڈ قائم ہو گا یا بارشوں کی وجہ سے ماحول خوشگوار ہو جائے گا۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں جیکب آباد، نوابشاہ یا دادو جیسے پاکستانی شہر جہاں ماضی میں بھی اپریل اور مئی میں شدید گرمی ریکارڈ ہوتی رہی ہے وہاں اس سال ریکارڈ توڑ گرمی پڑنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے محکمہ موسمیات نے جن حصّوں میں بارش کی پیش گوئی کی ہے وہ ملک کے شمالی علاقہ جات ہیں۔
پاکستان کے محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری کردہ ایڈوائزری کے مطابق 30 اپریل سے چار مئی کے دوران مختلف شہروں میں گرج چمک کے ساتھ ژالہ باری اور چند مقامات پر تیز بارش متوقع ہے۔جبکہ 2 مئی سے 5 مئی کے دوران جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے مختلف اضلاع میں گرد آلود ہوائیں، گرج چمک اور بارش کا امکان ہے۔اس کے علاوہ 11 مئی سے شمال مشرقی پنجاب میں نمی والی ہوائیں داخل ہونے کا امکان ہے جو مزید بارشوں کی بنیاد بن سکتی ہیں۔
محکمہ موسمیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر عرفان ورک کے مطابق اخباری رپورٹس کے برعکس پاکستان میں محکمہ موسمیات نے جو پیشگوئی کی ہے اُس پر قائم ہیں۔’یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور ہر کوئی اپنی مرضی سے خبر دینا مناسب سمجھتا ہے لیکن عموماً یہ خبریں حقائق کے برعکس ہوتی ہیں۔‘انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’جب یہ خبر چھپتی ہے کہ پاکستان میں دنیا کا گرم ترین دن آنے والا ہے تو قاری اس خبر کو پڑھنے کے لیے لپکتے ہیں اس لیے ایسی سرخیاں نکالی جاتی ہیں لیکن سائنسی طور پر محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق اگلے ایک ہفتے میں درجہ حرارت اوپر جانے کے بجائے کم ہوگا کیونکہ اس دوران اندھی بارش اور ژالہ باری کے امکانات موجود ہیں۔‘
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے بھی جب پاکستان میں ہیٹ ویو سے بچنے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں اس وقت بھی اچانک شدید ژالہ باری نے نہ صرف شہریوں کی گاڑیوں سولر پلیٹس اور عمارتوں کے شیشوں کو نقصان پہنچایا تھا بلکہ درجہ حرارت میں کمی کا باعث بھی بنی تھی۔
اگر گزشتہ ہفتے کے عالمی موسمی رجحانات کا جائزہ لیا جائے تو اپریل 2024 کے اختتام پر دنیا میں سب سے زیادہ درجۂ حرارت پاکستان کے شہر جیکب آباد اور دادو میں ریکارڈ کیا گیا، جو کہ 47.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا تھا۔ انڈیا کے شہر بارمر، راجستھان میں درجہ حرارت 46.4 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا، جو معمول سے چھ ڈگری زیادہ تھا۔
ماہرین کے مطابق ان دونوں علاقوں کا موسم عموماً خشک اور گرم ہوتا ہے، لیکن اس حد تک گرمی بہرحال تشویشناک ہے۔ نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اپریل کے مہینے میں دنیا کا اب تک کا سب سے زیادہ درجہ حرارت بھی پاکستان کے شہر نوابشاہ میں 2018 میں ریکارڈ کیا گیا تھا، جو 50 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ اسے اپریل کا عالمی ریکارڈ سمجھا جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا کہ مئی کے آغاز میں ایک نیا عالمی ریکارڈ بنے گا، ایک قیاس آرائی ضرور ہو سکتی ہے مگر فی الحال اس کی کوئی سائنسی بنیاد دستیاب نہیں۔
دوسری جانب دیکھا جائے تو ہر گزرنے والا سال پچھلے سال کی نسبت زیادہ گرم ہوتا جا رہا ہے۔ عالمی سطح پر2024 کو ناسا، کاپرنیکس موسمیاتی تبدیلی سروس، برطانیہ کے محکمہ موسمیات اور امریکی ادارہ نوا نے 2024 کو دنیا کا سب سے گرم سال قرار دیا تھا۔ ان عالمی رجحانات کی روشنی میں خطے میں ہیٹ ویوز کی شدت کا امکان ہے لیکن پاکستان کے مخصوص موسمی حالات جیسے نمی والی ہوائیں، بارشیں، ژالہ باری اس امکان کو محدود کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کا موقف ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ بنیادی طور پر صنعتی سرگرمیوں، توانائی کے روایتی ذرائع جیسے کوئلہ اور تیل کے استعمال، شہری علاقوں کے بے ہنگم پھیلاؤ، اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی کا نتیجہ ہے۔جب فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ جیسی گرین ہاؤس گیسیں بڑھتی ہیں تو وہ زمین کی حرارت کو واپس فضا میں جانے سے روکتی ہیں، جس سے زمین کا درجہ حرارت مسلسل بڑھتا ہے۔اس بڑھتی ہوئی گرمی کے اثرات صرف موسمی حدت تک محدود نہیں رہتے۔ گرمی کی شدت سے انسانی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے خاص طور پر بچے، بزرگ، اور دل یا سانس کے مریض زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں۔ہیٹ سٹروک کے واقعات بڑھ جاتے ہیں، ہسپتالوں پر دباؤ بڑھتا ہے، پانی کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے اور بجلی کے نظام پر بوجھ بڑھتا ہے۔ زراعت بھی اس سے متاثر ہوتی ہے، فصلیں جلد سوکھنے لگتی ہیں یا قبل از وقت پک جاتی ہیں، جس سے پیداوار میں کمی آتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، بارشوں کی شدت اور ترتیب میں تبدیلی کے اور قبل از وقت گلیشیئر پگھلنے کے باعث سیلاب جیسے خطرات بھی بڑھتے ہیں، جن سے شہری و دیہی انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچتا ہے۔