اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کی اندھا دھند حمایت واپس کیوں لے لی؟

سینئر صحافی اور کالم نگار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنے سیاسی اہداف طے کرنے میں مکمل کنفیوژن ہے جس سے کسی بھی واضح پلان پر عملدآمد ممکن نہیں۔ تحریک انصاف سے بلے کا نشان واپس لئے جانے کے بعد اس کی حکمت عملی بدل گئی ہے، پہلے سب کچھ نواز شریف کو دینے کی بات ہو رہی تھی، تازہ ترین تبدیلی یہ ہے کہ ریاست کی حکمت عملی میں اب نون لیگ کی اندھا دھند حمایت نظر نہیں آرہی الیکشن کے قریب سب کو فری ہینڈ دیا جائے گا کیونکہ اب سوچ یہ ہے کہ مسلم لیگ نون کو اتنا بھی طاقتور نہیں کرنا کہ وہ کل کو ریاست کے خلاف کھڑی ہوسکے۔ اپنے ایک کالم میں سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ آئندہ انتخابات کا جو نقشہ سامنے آرہا ہے وہ بڑا عجیب و غریب ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ ہم دوبارہ سے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کی صورتحال کی طرف رواں دواں ہیں۔ اب تک جو اعدادو شمار سامنے آئے ہیں انکے مطابق 1985ء میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں 1088آزاد امیدار تھے جبکہ 2024ء کے انتخابات میں 3248 آزاد امیدوار آمنے سامنے ہیں۔ لگتا ہے کہ پارٹیاں پیچھے رہ گئی ہیں اور آزاد امیدواروں کا میلہ لگ رہا ہے۔ باجوہ ڈاکٹرائن میں کہا جاتا تھا کہ 1985سے جو غیر جماعتی، غیر نظریاتی لوگوں کا کلچر پیدا ہوا ہے، اسے ختم کرنا ہے۔ 2024ء کے انتخابات سے لگ رہا ہے کہ وہی غیر جماعتی اور آزاد امیدواروں کا کلچر بحال ہو جائیگا ۔یہ لوگ نہ جماعتی ڈسپلن کے پابند ہونگے نہ ہی انکے کوئی نظریات ہونگے ۔یہ ترقیاتی فنڈز کیلئے ہر سیاسی اور اخلاقی اصول پامال کرنے کو تیار ہونگے۔ سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ یہ صورتحال، جو پیدا ہوتی نظر آ رہی ہے اسکے پیچھے ہماری ریاست کی نت نئی بدلتی حکمت عملی ہے۔جب نواز شریف نے لندن سے آنا تھا تو ریاستی حکمت عملی یہ نظر آ رہی تھی کہ سارا اقتدار و اختیار بائو جی کی جھولی میں ڈال دینا ہے، اس حد تک کہا گیا کہ سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کو اقتدار نہیں دینا اور باقی سارے ریاستی انڈے بھی بائو جی کے ٹوکرے میں ڈال دینے ہیں۔ کچھ ہفتوں بعد سوچ میں پھر تبدیلی آئی، پیپلزپارٹی کو سندھ میں دبانے کی حکمت عملی بدل گئی اور کہا جانے لگا کہ سپلٹ مینڈیٹ آئے گا۔ وزیراعظم نواز شریف اور صدر آصف زرداری بنیں گے، اندازہ یہ لگایا گیا کہ 70 سے 80 نشستیں ن لیگ لے گی اور 50 سے 60 نشستیں پیپلزپارٹی لے گی یوں انکی مخلوط حکومت بنائی جائے گی پھر یکایک نئی حکمت عملی سامنے آئی کہ تحریک انصاف کو آزادانہ موقع ملا تو وہ انتخابات سویپ کر جائے گی اس لئے انتخابات کو ملتوی کروایا جائے، اس کوشش کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کامیاب نہ ہونے دیا، اسی دوران جسٹس اطہرمن اللہ نے ایک اہم سائفر مقدمے میں عمران خان کو بری کر دیا ساتھ ہی ساتھ پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کو ریلیف دیا تو ریاست اور عدلیہ میں مکمل ٹھن گئی ایسی تجاویز تک سامنے آنے لگیں کہ ججوں کو فارغ کیسے کیا جائے مگر پھر عدلیہ اور ریاست میں درمیانی راستہ نکال لیا گیا۔ سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ تحریک انصاف سے بلے کا نشان واپس لیا گیا تو پھر سے حکمت عملی میں تبدیلی نظر آنا شروع ہو گئی، اب دوبارہ سے جہانگیر ترین اور علیم خان کی آئی پی پی کی اہمیت بڑھ گئی ہے، پہلے صرف نون اور بائو جی کو سب کچھ دینے کی بات ہو رہی تھی، اب کہا جا رہا ہے کہ طاقت کا توازن آزاد امیدواروں کے حق میں آ رہا ہے۔ ریاست کے اہلکار خوش ہیں کہ اگر آزاد امیدوار زیادہ تعداد میں جیت کر سامنے آ گئے تو انہیں ہینڈل کرنا آسان ہو جائیگا ۔تازہ ترین تبدیلی جو حکمت عملی میں آ رہی ہے یہ کہ الیکشن کے قریب سب کو فری ہینڈ دیا جائے کیونکہ اب سوچ یہ ہے کہ نون کو بھی اتنا طاقتور نہیں کرنا کہ وہ کل کو ریاست کے خلاف کھڑی ہوسکے۔ دوسری طرف نون لیگ کی حکمت عملی شروع ہی سے یہ تھی کہ انتظامیہ انکی مرضی کی ہو اور وہ وقت آنے پر انکی بھی مدد کرے۔ ابھی تک نون کو اپنی مرضی کی انتظامیہ کا فائدہ ہو رہا ہے حالانکہ ریاست کی حکمت عملی میں اب نون کی اندھا دھند حمایت نظر نہیں آرہی ۔اب اگر ریاست کی بدلتی حکمت عملیوں کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آرہا ہے کہ سیاسی اہداف میں مکمل کنفیوژن ہے۔ کبھی کچھ اہداف مقرر کئے جاتے ہیں اور کبھی کچھ۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی بدلتی حکمت عملیوں میں کسی بھی واضح پلان پر عملدآمد ممکن نہیں رہتا۔ سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ الیکشن کا رزلٹ کیا ہوگا ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا، یہ بات البتہ طے ہے کہ الیکشن جیسا بھی ہو بہرحال تبدیلیاں ضرور لاتا ہے۔ فرض کر لیں کہ اگر واقعی آزادوں کا میلہ لگ گیا اور ہم پھر 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات والی صورتحال میں پہنچ گئے تو ہم نے کئی دہائیوں کا جو سیاسی سفر کیا ہے کیا وہ رائیگاں نہیں جائیگا؟یہ درست ہے کہ ہمارے اہل سیاست میں خامیاں ہیں کسی ملک کے سیاستدانوں میں یہ خامیاںکم ہوتی ہیں کسی ملک میں زیادہ لیکن سیاست کرنا اور ملک چلانا بہرحال انہی کا منصب ہے، جس طرح ایک بہترین انجینئر سے کسی مریض کا آپریشن کروانے کا رسک نہیں لیا جا سکتا بلکہ اس کیلئے بدترین ڈاکٹر بھی دستیاب ہو تو اسی سے رجوع کرنا پڑتا ہے، بالکل اسی طرح سیاست ، سیاستدانوں کے علاوہ کسی اور کے حوالے نہیں کی جاسکتی ۔سیاسی جماعتیںبرسوں بلکہ دہائیوں میں بنتی ہیں، ان میں عوام کی خواہشوں کی سرمایہ کاری ہوتی ہے، یہ بھی دوسرے محترم اداروں کی طرح بڑی محترم ہونی چاہئیں۔ آزاد امیدواروں کا میلہ لگے گا تویہ سیاسی جماعتوں، سیاست دانوں اور سیاست ، سب کیلئے برا شگون ہو گا ،سیاست کمزور ہو گی تو ملک کی سول سوسائٹی اور بالآخر ریاست کمزور ہو گی۔ سہیل وڑائچ کے مطابق ریاست نے انہ صرف اپنے استحکام کے اہم ترین عنصر سیاست کو ہمیشہ نظرانداز کیا ہے بلکہ اسے نقصان بھی پہنچایا ہے۔ جب تک سیاست اور سیاسی جماعتیں مضبوط نہیں ہونگی ریاست بھی مضبوط نہیں ہو گی۔دوسری طرف اہل سیاست کو بھی اپنی معاشی معاملات کے بارے میں اہلیت بڑھانا ہو گی ،سیاسی جماعتوں کے اندر ڈاکٹروں، انجینئروں، ماہرین معیشت اور دوسرے پروفیشنلز کو لانا ہوگا تاکہ جب بھی کسی سیاسی جماعت کو اقتدار میں آنے کا موقع ملے، وہ اس قابل تو ہو کہ ملک کومنظم اور احسن طریقے سے چلاسکے۔میرا خیال ہے کہ ہم جن بحرانوں کا شکار ہیں اسکے بعد ریاست کو سوچنا چاہئے کہ دیرپا حل کیا ہے، آزاد امیدواروں کی نئی سرے سے اسمبلی بنا کر کیا سیاست بہتر ہو جائےگی؟ ہرگز نہیں۔ ہو گا کیا، بس ریاست کا کنٹرول بڑھ جائے گا، ریاست کے پاس پہلے ہی بہت کچھ ہے اسے ہی کنٹرول کرلے تو کافی ہے، سیاست کو کنٹرول کرنے کا خیال ہی سرے سے غلط ہے . یہ خیال غیر آئینی، غیر جمہوری اور سب سے بڑھ کر ریاست کے وجود کیلئے خطرناک ہے۔ کاش بہتر مستقبل کیلئے بہتر حکمت عملی بنانی شروع کردی جائے .

Back to top button