آن لائن تحریک انصاف کی آن گرائونڈ سیاسی حالت کیا ہو چکی؟
سینئر سیاسی تجزیہ کار عمار مسعود نے کہا ہے کہ ریڈ لائن کے بعد تحریک انصاف کا سب سے بڑا کارنامہ آن لائن ہے۔ یہ وہ پارٹی ہے جس کی خوشیاں بھی آن لائن ہیں، ماتم بھی آن لائن، احتجاج بھی آن لائن اور اختلاف بھی آن لائن، وفاداریاں بھی آن لائن، بے وفائیاں بھی آن لائن۔ اس آن لائن کلچر میں اگر کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ آن لائن جلسے نے پوری کردی۔ عمران خان کی جماعت کی اصل صورت حال یہ ہے کہ گراؤنڈ پر نہ پارٹی ہے نہ کارکن، نہ کوئی تنظیم ہے نہ سٹرکچر، نہ ٹکٹ دینے والا کوئی ہے نہ ٹکٹ لینے والا کوئی دستیاب ہے۔ اپنی ایک تحریر میں عمار مسعود لکھتے ہیں کہ ایک زمانہ تھا کہ تحریک انصاف کی ریڈ لائن عمران خان تھے۔ آج ساری تحریک انصاف پر ریڈ لائن لگ چکی ہے۔ کسی زمانے میں عمران کی گرفتاری کا ذرا سا بھی خدشہ ہوتا تھا تو کارکنان کے زمان پارک پہنچنے کا غلغلہ بلند ہوتا تھا۔ آج زمان پارک ویران پڑا ہے اور کوئی وہاں جانے کو تیار نہیں۔ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا جنگجوؤں نے عمران خان کی گرفتاری کو جس طرح فیس بک اور ٹوئیٹر پر روکنے کی کوشش کی، اس جلالی کوشش کا نتیجہ پہلے نو مئی کی صورت میں نکلا اور اس کے بعد کپتان کی حتمی گرفت کی صورت سامنے آیا۔ اب وہ زمانہ آ گیا ہے کہ ریڈ لائن کے حوالے سے نعرے مدہم پڑ چکے ہیں، اب ریاست کے خلاف بغاوت کی سازش میں کمی آ چکی ہے، اب تحریک انصاف، تحریک پریس کانفرنس بن چکی ہے۔ وہ جیالے جنہوں نے ٹرکوں کے نیچے لیٹنا تھا اب سینہ تان کر پریس کانفرنس کر کے اُڑن چھو ہو رہے ہیں۔ وہ جنہوں نے امریکا کو للکارنا تھا اب ویزہ لینے کی لائنوں میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ جنہوں نے خوف کے بت توڑ دینے تھے اب خوف کے مارے گھر سے نکلنے سے اجتناب برت رہے ہیں۔
عمار مسعود کا کہنا ہے کہ اس سارے عرصے میں تحریک انصاف پر یہ انکشاف ہوا کہ ریڈ لائن کوئی فرد یا جماعت نہیں ہو سکتی۔ ریڈ لائن ریاست ہوتی ہے جس کی حدود و قیود کو پار کرنا جرم ہوتا ہے۔ اور اگر آپ جوش خطابت میں یا کسی کے’فیض‘ سے اس ریڈ لائن کو کراس کریں تو ریاست ماں جیسی نہیں رہتی بلکہ ریاست باپ بن جاتی ہے جو ناخلف اولاد کی سزنش بھی کر سکتی ہے، سزا بھی دے سکتی ہے اور نافرمانی پر عقوبت خانوں میں بھی دھکیل سکتی ہے۔ ریڈ لائن صرف ایک ہوتی ہے وہ ریاست کی سلامتی اور مفادات ہوتے ہیں. ریڈ لائن کے بعد تحریک انصاف کا سب سے بڑا کارنامہ آن لائن ہے. اب آن لائن جلسے کے قصیدے پڑھے جا رہے ہیں۔ شرکاء کی تعداد ہزاروں سے ہوتی ہوئی لاکھوں میں اور لاکھوں سے ہوتی ہوئی کروڑوں تک پہنچ چکی ہے۔ کئی روپوش اس جلسے میں شریک ہوئے، کئی پردہ نشیں چھپ چھپ کے آئی ڈیز کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کا مشاہدہ کرتے رہے۔ اس جلسے کے بہت سے فوائد ہوئے۔ نہ کسی نے کرسیاں گننے کی زحمت کی، نہ کسی نے کارکنوں کی کم تعداد کا شکوہ کیا، نہ ڈی جے بٹ کے ساؤنڈ سسٹم کا کوئی خرچہ پڑا نہ سٹیج بنوانے کی کلفت سے گزرنا پڑا۔ لمحوں میں فیک آئی ڈیز سے عوام کا سمندری طوفان تخلیق ہوا اور اس کے بعد رہے نام اللہ کا۔ وہ تماشا ہوا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دی۔ کچھ سمجھ نہیں آیا کہ فتح کس کو ہوئی، شکست کس کا مقدر بنی۔ بس! یہ نعرہ بار بار لگایا گیا کہ آن لائن پاور شو بہت کامیاب رہا۔ عمار مسعود بتاتے ہیں کہ جنرل مشرف کے دور کا آخری زمانہ تھا ۔ ان کی مقبولیت روز بہ روز کم ہو رہی تھی کہ کسی نے مشرف کو ابتلاء کے اس دور میں ’آن لائن‘ والی کہانی سمجھائی۔ دنوں میں مشرف کے فالوورز لاکھوں میں پہنچ گئے۔ آن لائن سروے پرجنرل مشرف نہ صرف ایشیاء بلکہ دنیا کی معروف ترین شخصیت قرار پائے۔ زمانہ ایسا تھا کہ مشرف بھی فیس بک پر فالورز کی بڑھتی تعداد دیکھ دیکھ کر زندہ تھے۔ وہ سجھتے تھے کہ یہ آن لائن لوگ ان کے اقتدار کو بچانے آئیں گے، ان کی للکار پر لبیک کہیں گے، ان کے حق میں دم بدم منزلیں مارتے ان کے قدموں میں جان نچھاور کر دیں گے۔ کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ وکلاء تحریک سے ہزیمت اٹھانے کے بعد مشرف کو اپنی مقبولیت کی تصدیق کے لیے ایک جلسہ عام کروانے کی ضرورت پڑ گئی۔ ڈی چوک میں میدان سجایا گیا۔ پرویزالہی نے جیسے تیسے بیس، پچیس ہزار افراد بسوں میں لاد کر جمع کیے۔ جنرل مشرف کو توقع کروڑوں کے مجمع کی تھی کیونکہ آن لائن والے یہی بات بتاتے تھے۔ جلسہ گاہ میں عوام کی قلیل تعداد دیکھ کر جنرل صاحب نے مکے تو لہرائے، نعرے تو لگائے مگر نہ آواز میں وہ دم رہا نہ بازو میں وہ طاقت رہی۔ انہیں اس ایک جلسے میں پتہ چل گیا کہ آن لائن سب دھوکہ ہے اگر عوام گراؤنڈ پر آپ کے ساتھ نہیں تو پھر کارزار سیاست میں آپ کے قدم نہیں جمتے اور اقتدار ہاتھ سے مٹھی میں سے ریت کی طرح پھلستا جاتا ہے۔ یہ جلسہ جنرل صاحب کے دور اقتدار کا آخری جلسہ ثابت ہوا۔ عمران خان کی جماعت کی بھی یہی صورت حال ہے۔ ایسے میں اگر آپ آن لائن جلسے میں کروڑوں کی شرکت کے دعوے کریں گے تو اپنا تماشہ خود بنائیں گے۔ ’کی بورڈ جنگجو ‘ اور سوشل میڈیا کے پردھانوں کو بات سمجھ نہیں آ رہی کہ کہانی اب ختم ہو چکی ہے۔ عمران خان کو اور ان کے قریبی ساتھیوں کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ناک سے دو تین لکیریں نکالے بغیر کب کوئی بات سمجھ آتی