عطا الحق قاسمی کے اپنے دوست نواز شریف کے لیے سیاسی مشورے

زمانہ طالب علمی سے نواز شریف کے دوست معروف لکھاری عطا الحق قاسمی نے کہا ہے کہ مرکز اور پنجاب میں نواز لیگ کی حکومتیں بننے کے بعد سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے نواز شریف کی جماعت میں آپسی اختلافات ضرورت سے زیادہ ہی بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور وفاق اور پنجاب کی حکومتوں کا حال یہ ہے کہ وزرا عوام سے چھپتے پھر رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس کام کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عطا الحق قاسمی کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے صدر تو منتخب ہوگئے لیکن ان کیلئے یہ ایک علامتی سا عہدہ لگتا ہے، نواز شریف کا سیاسی قد کاٹھ اتنا ہے کہ بادی النظر میں کوئی بھی عہدہ ان کی ضرورت نہیں ہے، مجھ پر طنز کیا جاتا ہے کہ میں میاں صاحب کے حوالے سے جانبدار ہوں، جبکہ مجھ میں اور طنز کرنے والوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ میں اس کا اعتراف کرتا ہوں اور وہ اپنی جانبداری بلکہ ’’جانبداریوں‘‘ کا اعتراف نہیں کرتے۔ میں تب بھی ان کے ساتھ تھا جب وہ وزیراعظم تھے اور تینوں بار تب بھی میری جانبداری میں کوئی فرق نہیں آیا جب وہ جیل کے ڈیتھ سیل میں اور جلاوطنی کے ادوار سے گزر رہے تھے۔ میرے خیال میں وہ واحد حکمران اور برس ہا برس مصیبتیں جھیلنے والے رہنما ہیں، جن کے علاوہ کوئی سیاست دان مجھے اتنا زیادہ پسند نہیں آیا کہ اس کیلئے کھل کر کلمۂ خیر کہہ سکوں۔ میری اس جانبداری کی ایک وجہ ان کا بے حد بہادر ہونا ہے اور وہ ماضی میں بار ہا اس کا مظاہرہ کرتے چلے آئے ہیں، وہ ملک کی خاطر یہ رسک بار ہا لےچکے ہیں اور شاید آئندہ بھی وہ اسی رستے پر چلتے رہیں گے۔

عطا الحق قاسمی کہتے ہیں کہ نواز شریف کو پسند کرنے کی ایک وجہ ان کا ویژنری ہونا ہے، ایک اور وجہ یہ کہ وہ ڈائون ٹو ارتھ ہیں، حد درجہ منکسر المزاج اور چھوٹوں بڑوں سب کو عزت دینے والے ہیں۔ لیکن بہت معذرت کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دوسری سیاسی جماعتوں میں بھی پارٹی بازی موجود ہے مگر مسلم لیگ (ن) میں یہ کچھ زیادہ نظر آنے لگی ہے۔ نون لیگ میں آپسی لڑائی کی ایک شکل الیکشن کے دوران ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے بھی نظر آئی۔ یہ بھی نظر آتا ہے کہ حاکمِ وقت کے کون قریب ہے اور کسے دور دور رکھا جاتا ہے، حکومت کے باہر بھی پسندیدہ اور ناپسندیدہ افراد کی تقسیم کا شائبہ دکھائی دیتا ہے، مجھے لگتا ہے مشورہ دینے والے بھی محتاط ہیں، مجھے مرکز میں چار پانچ وزراء ایسے دکھائی دیتے ہیں جو اپنے عہدے سے انصاف کرتے دکھائی دیتے ہیں، ایک دو ایسے بھی جو پارٹی سے کسی مسئلے کے حوالے سے کھل کر اختلاف کرتے ہیں اور ان کا یہ اختلاف چھلک کر باہر بھی آ جاتا ہے، جن حالات میں الیکشن ہوئے شاید اس کی وجہ سے بھی سلیکشن کڑے معیار کو سامنے رکھ کر نہیں کی جا سکی۔

عطا الحق قاسمی کہتے ہیں کہ اس وقت سیاسی میدان میں میاں نواز شریف کے قد کاٹھ کا کوئی اور لیڈر نہیں، چنانچہ خود انہیں مشورہ دینا بہت عجیب سا لگتا ہے، شاید اسی لئے ان کے قریب ترین اور انتہائی مخلص ساتھی بھی اس حوالے سے ہچکچاتے ہیں، مگر میں یہ ’’رسک‘‘ لے رہا ہوں اور وہ یوں کہ ان کے ساتھ چند پست قد و قامت کے جج صاحبان نے اپنے منصب سے گری ہوئی جو حرکتیں کیں اور جس کی وجہ سے ترقی کرتا ہوا پاکستان تنزلی کی طرف چلا گیا، ان کے مطابق بہت ہو چکی، میرے خیال میں ایک بڑے لیڈر کی طرف سے ان کا بار بار ذکر انہیں اہمیت دینے کے برابر ہے۔ ان کا کردار ساری دنیا کے سامنے اظہر من الشمس ہو چکا ہے، سب جان چکے ہیں کہ یہ لوگ کہاں سے بول رہے تھے اور اب شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جو جان نہ چکا ہو کہ ان پر لگائی گئی تہمتیں خود واپس ان لوگوں کے چہروں پرچسپاں ہو چکی ہیں اب انہیں بھول جانا چاہیے۔ لہٰذا میرے نزدیک میاں صاحب کے کرنے کے جو کام ہیں ان میں سرفہرست قوم کو ازسر نو ترقی کے سفر پر روانہ ہونے والے چارٹر کی تیاری اور اس کی نگہبانی ہے، وزیراعظم شہباز شریف خود بھی سب سے زیادہ اسی کام کو اہمیت دیتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ اپنے بھائی کو اپنا لیڈر قرار ہی نہیں دیتے، ان کے مشوروں کو ان کا حکم گردانتے ہیں۔ اب یہ کام تیز سے تیز تر ہو جائے گا۔ دوسرا کام پنجاب کے حوالے سے ہے جو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اور مسلم لیگ کا گڑھ رہا ہے، شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر زبردست کارکردگی دکھا چکے ہیں، اب مریم نواز پنجاب کی وزیر اعلیٰ ہیں چنانچہ انہیں سخت امتحان میں ڈال دیا گیا ہے مگر وہ نواز شریف کی بیٹی ہیں اور سیاسی کارکن کے طور پر بہت صعوبتیں بھی برداشت کر چکی ہیں، چنانچہ امید تو یہی ہے کہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہوں گی تاہم انہیں قدم قدم پر رہنمائی کی ضرورت ہے اور رہنمائی کا یہ فریضہ بھی میاں نواز شریف ہی کو ادا کرنا ہے۔

عطا الحق قاسمی کہتے ہیں کہ مریم نواز کو خود بھی اپنے گرد ایسا ماحول پیدا کرنا چاہیے کہ لوگ انہیں صحیح مشورہ دیتے ہوئے جھجکیں نہیں، میں نے میاں نواز شریف کو تو راہگیروں سے بھی مشورہ کرتے دیکھا ہے، اب یہ کام مریم نواز کو بھی کرنا ہے اور میاں صاحب کو اب وسیع تر مشاورت کا یہ سبق بھی مریم نواز کو دینا ہے اور ایسا کرتے وقت ان کی ’’باپتا‘‘ درمیان میں نہیں آنی چاہیے۔ آخر میں میاں نواز شریف کو بتانا چاہتا ہوں کہ مسلم لیگ کے وزرا مسلم لیگ کی حکومت بننے کے بعد سے لوگوں سے چھپتے پھر رہے ہیں، لوگ ان کے پاس جائز کاموں کیلئے آتے ہیں جو وزراء ہی کرسکتے ہیں، مگر وزراء کا رابطہ اپنے کارکنوں سے بھی نہیں، اس کوتاہی کی طرف بھی توجہ دینا ضروری ہے، کیونکہ ان کارکنوں کی آئندہ بھی ضرورت پڑنی ہے۔

Back to top button