فوج نے عمران کی مذاکرات کی درخواست سختی سے رد کر دی

باخبر عسکری ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ فوجی قیادت نے اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کی مذاکرات کی درخواست سختی سے رد کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ فوج ایک غیر سیاسی ادارہ ہے جسکا کسی کے قید میں جانے یا باہر آنے سے کوئی تعلق نہیں۔ ویسے بھی اگر وہ بطور سیاست دان کسی معاملے پر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو سیاسی جماعتوں سے کریں۔ روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے خصوصی سینٹرل رپورٹنگ سیل کی رپورٹ کے مطابق آئی ایس پی آر کے ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ عمران کی مذاکرات کی خواہش کے جواب میں حکومتی ترجمان نے جو موقف دیا ہے تقریبا وہی موقف عسکری قیادت کا بھی ہے۔ یاد رہے وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے کہا ہے کہ عمران خان 9 مئی کے افسوس ناک حملوں پر پاک فوج سے معافی مانگیں، بجائے کہ اس سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کریں۔ اس سے پہلے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے واضح کر دیا تھا کہ فوج بانی تحریک انصاف سے مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ تاہم  اگر اس کے سربراہ 9 مئی کے حملوں سمیت اپنے جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگیں اور آئندہ نفرت انگیزی سے باز رہنے کی یقین دہانی کروائیں تو سیاسی جماعتیں ان سے بات چیت پر غور کر سکتی ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ جیسے عمراندار جج اصل میں چاہتے کیا ہیں؟

اس سے پہلے اڈیالہ جیل کے کمرہ عدالت میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ ہم فوج سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں، فوج اپنا نمائندہ مقرر کرے ہم اس سے مذاکرات کریں گے۔ صحافی نے سوال پوچھا کہ آپ فوج پر الزامات لگاتے ہیں اور ان ہی سے مذاکرات بھی چاہتے ہیں، آپ سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کیوں نہیں کرتے؟ اس پر عمران نے جواب دیا کہ ہم نے فوج پر الزامات نہیں لگائے بلکہ صرف تنقید کی، ان کا کہنا تھا کہ یہ محسن نقوی کون ہے؟ ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لاء لگ چکا ہے، صحافیوں نے عمران سے سوال کیا اگر فوج کی جانب سے محسن نقوی کو مذاکرات کا اختیار دیا جائے تو کیا وہ مذاکرات کریں گے؟ اس پر عمران نے جواب دیا کہ میں محسن نقوی سے کبھی بات نہیں کروں گا، اس نے آئی جی پنجاب سے مل کر ہماری پارٹی پر ظلم کیا جب کہ مریم نواز بھی فاشسٹ ہے۔ انیوں نے کہا کہ محسن نقوی ان ہی کا تو نمائندہ ہے، وہ اس عہدے پر ان ہی کے ذریعے پہنچا ہے۔ تاہم ان کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا کہ اگر محسن نقوی فوج کا نمائندہ ہے اور وہ فوج ہی سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو پھر محسن نقوی سے ان کے مذاکرات کیوں نہیں ہو سکتے۔

عمران کا مزید کہنا تھا کہ مجھے جوڈیشل کمپلیکس سے اغواء کیا گیا تو چیف جسٹس عامر فاروق نے اسے درست قرار دیا، لہازا جسٹس عامر فاروق سے گزارش ہے کہ عہ میرے مقدمات سے الگ ہو جائیں، ہائیکورٹ میں اور بھی ججز موجود ہیں، وہ میرے کیسز کسی اور جج کو دے دیں۔ بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ 9 مئی کے گھیراو جکاو میں اگر تحریک انصاف کا کوئی بندہ ملوث ہے تو اسے ضرور سزا دیں، لیکن اس وقت حکومت کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ پی ٹی آئی اور فوج کو لڑوا کر ہماری جماعت کو ختم کروایا جائے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے عمران خان یہ بات تسلیم کر چکے ہیں کہ انہوں نے 9 مئی کو راولپنڈی میں اپنے ورکرز کو جی ایچ کیو کی بلڈنگ کے سامنے اکٹھے ہو کر احتجاج کونے کی کال دی تھی۔

یاد ریے کہ اس نے پہلے عمران خان نے پچھلے ہفتے فوج کے سربراہ سے کہا تھا کہ وہ نیوٹرل ہوجائیں اور اب موصوف نے فوج سے کہا ہے کہ وہ اپنا ایک نمائندہ مقرر کرے جس سے وہ مزاکرات کے خواہاں ہیں۔ یعنی ایک جانب وہ فوج کا سیاسی کردار ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب ان کا اصرار ہے کہ وہ سیاست دانوں یا حکومت سے نہیں بلکہ صرف فوجی قیادت سے ہی مذاکرات کریں گے۔ یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ فوج اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی پر اپنی توجہ مرتکز کئے ہوئے ہے اس سے مذاکرات کا تصور ان معنوں میں بھی ناقابل فہم ہے کہ اس کی آئین و قانون میں کوئی گنجائش نہیں بنتی۔

Back to top button