عمران کا جیل سے نکلنے کے بجائے فوجی تحویل میں جانے کا امکان

مقتدر حلقوں میں عمران خان کے حوالے سے کسی قسم کا نرم گوشہ پیدا نہ ہونے کی وجہ سے بانی پی ٹی آئی کی جلد جیل سے رہائی نا ممکن دکھائی دیتی ہے۔ مبصرین کے مطابق فوجی قیادت 9 مئی کے حوالے سے شرپسند عمرانڈوز کو کسی قسم کی رعایت دینے کو تیار نہیں اس لئے عدلیہ سے عمران خان اور تحریک انصاف کو جو مرضی ریلیف ملتا رہے اسٹیبلشمنٹ کبھی بھی 9 مئی کے منصوبہ سازوں اور ملزمان کو سزائیں دینے سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ اس لئے نہیں لگتا کہ عمران خان مستقبل قریب میں جیل سے باہر آ سکیں گے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی آر کی حالیہ نیوز کانفرنس سے تحریک انصاف گہری مایوسی میں ڈوب گئی ہے۔ جس کے بعد عمران خان کی رہائی کی امیدیں زمیں بوس ہوگئی ہیں، جس کے بعد عمران کی جیل سے رہائی کا پھاٹک کھلنے کی بجائے لگتا ہے وہ ملٹری کورٹس کے سپرد ہونگے۔

فوج نے عمران خان کی معافی کی آفر کو مذاق کیوں قرار دے دیا ؟

بانی پی ٹی آئی عمران خان کی قید کو ایک سال مکمل ہونے کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ بحث تاحال جاری ہے کہ عمران خان کو قید رکھنے سے کس کو کیا فائدہ ہوا؟ کیا اس عرصے کے دوران عمران خان کی مقبولیت میں کمی آئی اور اس کا انتخابات یا ملکی سیاست پر کیا اثر پڑا؟ اگرچہ عمران خان کے سیاسی حریف یہی کہتے ہیں کہ وہ قانونی طور پر سزا پانے کے بعد جیل میں ہیں تاہم ایک سوال جو آج بھی پی ٹی آئی سمیت کئی حلقوں کی جانب سے پوچھا جاتا ہے وہ یہ کہ عمران خان کو جیل میں رکھنے سے کس کو کیا فائدہ ہوا؟

صحافی و تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق’عمران خان کو چونکہ ملک میں سیاسی و معاشی انتشار کا ذمہ دار سمجھا جا رہا تھا اور اسی بحران کو ختم کرنے کے لیے انھیں جیل میں بند کیا گیا تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کے جیل میں جانے کے بعد بھی بحران ختم نہیں ہوا۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’سیاسی لیڈر شپ کے لیے جیل کی بندش اس کا سیاسی کردار ختم نہیں کرتی، جب تک آپ سیاسی انداز میں ان سے نہ لڑیں، معاملات حل نہیں ہوتے ہیں۔‘

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان کے جیل جانے سے ان کی مقبولیت کم ہوئی؟تجزیہ کار سلمان غنی اور عاصمہ شیرازی نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان ایک مقبول سیاسی لیڈر تھے اور آج بھی ہیں۔‘تاہم سلمان غنی کے مطابق ’ان کے جیل جانے سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا کیونکہ سیاسی لیڈر کا جیل جانا عوام میں اس کے لیے ہمدردی پیدا کرتا ہے۔‘ان کا مزید کہنا ہے کہ ’عمران کی مقبولیت اور ان کی پارٹی پر اثر انداز ہونے کے لیے ان کے سیاسی حریف حکومتی جماعت کے لیے ضروری تھا کہ وہ عوام کو ریلیف دیتی۔ پاکستان کی معاشی بحالی ہوتی یا پاکستان آگے کی طرف بڑھتا نظر آتا تو پھر یقیناً عمران خان کی مقبولیت کو کم کیا جا سکتا تھا۔‘اکثر مبصرین یہ رائے رکھتے ہیں کہ گذشتہ ایک سال میں عمران خان فوج مخالف بیانیہ بنانے اور سیاسی حریفوں کو سیاسی میدان میں مات دینے میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔

اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں عمران خان کی گرفتاری سے بہت سے مطلوبہ نتائج حاصل بھی ہوئے مگر کچھ مقاصد پورے نہیں ہوئے۔ جیسا کہ ایک جماعت کو اقتدار میں لانے کے لیے ان کی جماعت کو روکنے کی کوشش کامیاب ہونا۔ پی ٹی آئی کا انتخابی نشان واپس لیا جانا اور الیکشن میں ان کی جماعت کو انتخابی نقصان ہونا۔‘دوسری جانب مسلم ن اور دیگر سیاسی جماعتوں کے بیانات کے مطابق عمران خان کی پارٹی کا حکومت نہ بنا پانا ہی ان کی سیاسی شکست ہے۔

تاہم تجزیہ کار سلمان غنی کے بقول ’میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کی خراب کارکردگی کے باعث عمران خان کے جیل جانے کے بعد بھی ان کا سیاسی کردار ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گیا۔‘وہ کہتے ہیں کہ آج ساری سیاست ان کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ ’ان کی سیاست کا خاتمہ تب ہوتا جب آپ انھیں سیاسی محاذ پر شکست دیتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس لیے میرے خیال سے عمران خان کو بند کر کے جو استحکام ملک میں لانا چاہتے تھے وہ نہیں لا پائے۔‘

عاصمہ شیرازی اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’معیشت کے اعداد و شمار جو بھی ظاہر کر رہے ہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ عام آدمی تک ریلیف نہیں پہنچا۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ معیشت کے اشاریے بہتر ضرور ہوئے لیکن پاکستان کے معاشی حالات کا ذمہ دار ایک سیاسی جماعت کو قرار دینا نامناسب ہو گا۔‘

گزشتہ دوسالہ میں عمران خان کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ پر تابڑ توڑ حملوں بارے ایک سوال کے جواب میں تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ایک سیاسی حقیقت ہے۔ عمران خان نے اپنے سیاسی کیرئیر میں اس حقیقت کو استعمال کیا لیکن اس کے باوجود بھی انھوں نے جتنا اسٹیبلشمنٹ کو نقصان پہنچایا، کسی نے نہیں پہنچایا۔ تاہم عاصمہ شیرازی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جب بھی کوئی سیاسی جماعت یہ الزام عائد کرتی ہے کہ ہمارا مینڈیٹ چوری ہوا اور فوج کی مداخلت ہوئی تو اس بات پر عوام میں غصہ پایا جاتا ہے۔’اس مخصوص معاملے پر تو ڈی جی آئی ایس پی آر کو باقاعدہ ٹی وی پر آ کر کہنا پڑا کہ ہمارا سیاست میں کوئی کردار نہیں اور یہ بہت بڑی بات ہے۔‘وہ کہتی ہیں کہ سیاست میں فوج کے کردار پر ہر سیاسی جماعت کو اعتراض ہے اور اس معاملے میں فوج کے حوالے سے جذبات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

تاہم یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان جلد جیل سے رہائی پا سکیں گے؟اس سوال کے جواب پر سیاسی تجزیہ کاروں اور پی ٹی آئی رہنماؤں کی رائے ایک ہی ہے۔تجزیہ کار سلمان غنی اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’کسی بھی سیاسی لیڈر کو زیادہ دیر تک جیل میں نہیں رکھا جا سکتا۔ ایک نہ ایک دن وہ باہر آئیں گے لیکن ابھی جلدی ان کے باہر آنے کی امید خاصی کم ہے۔‘ عاصمہ شیرازی بھی عمران خان کو جلد جیل سے باہر آتا نہیں دیکھ رہیں۔ عاصمہ شیرازی کے مطابق مستقبل قریب میں بانی پی ٹی آئی کے جیل سے باہر آنے کے امکانات معدوم ہی دکھائی دیتے ہیں۔

Back to top button