پاکستان سے محبت کا بیانیہ آؤٹ آف فیشن کیوں ہوتا جا رہا ہے

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ ہمارے ایٹم بم کی وجہ سے پاکستان بین الاقوامی طاقتوں کی آنکھوں میں کھٹکتا رہتا ہے۔ اگر ایٹم بم بنانے یا نہ بنانے کی کوئی بحث تھی بھی تو اب وقت گزر چکا، ہم ایٹم بم بنا چکے ہیں اور وہ ہمارے پاس موجود ہے۔ اب ہمارے پاس اس بم کو بچانے اور پاکستان کو خوشحالی کہ راہ پر ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ لہذا ہم سب کو سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف ملک کا ہی سوچنا چاہیے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ آج کل حب الوطنی آئوٹ آف فیشن ہے اور مایوسی، ناکامی اور شکست کا راگ اِن ہے۔ آپ جتنا رونا دھونا ڈالیں، اتنی ہی مقبولیت ملتی ہے۔ اشفاق احمد کہا کرتے تھے مرچ بھی مزا دیتی ہے اسی طرح زخموں کو کریدنے، بہتے خون کو دیکھنے، اور خود مذمتی اور خود ملامتی کا بھی مزا ہے۔ پاکستان آج کل اسی نفسیاتی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ جس محفل میں بھی جائیں اندھیرے مستقبل، غلطیوں اور خامیوں کا سیاپا سننے کو ملتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ خوشگوار نہیں ہے مگر مجھے نہ تو فیشن سے غرض ہے اور نہ مقبولیت کی پروا ہے۔ تمام تر خامیوں کے باوجود مجھے یہ سوہنی دھرتی اپنی اپنی لگتی ہے مجھے اسکی گندی نالیاں اسکی ٹوٹی سڑکیں اور ہر روز کے دھکے کھانے کی عادت پڑ چکی ہے اور میں اپنی ان عادتوں کو بالکل بدلنا نہیں چاہتا ہوں۔ یہ دھرتی اپنی تمام تر خوبیوں خامیوں سمیت میری ہے اور مجھے اس سے پیار ہے۔ میں اسکا فرسٹ ریٹ شہری ہوں جبکہ اور کہیں بھی مجھے یہ رتبہ نہیں ملتا، ریاست مجھے جیل میں رکھے، میری تحریر و تقریر پر پابندیاں لگائے یا مجھے پائے حقارت سے ٹھکرائے، پھر بھی یہ میری دھرتی ہے اور اگر یہ ریاست مجھے احترام دے عزت کرے یا مجھے ہر طرح کی آزادیاں دے تب بھی یہ میری دھرتی ہے۔

سہیل کہتے ہیں کہ پاکستان کل کو ایتھوپیا بن جائے یا سنگاپور جیسا ہو جائے دونوں صورتوں میں میرے لئے واحد جائے امان ہے۔ خواہش اور کوشش تو یہ ہے کہ ہم پاکستان کو سنگاپور جیس کامیاب بنائیں مگر اگر ناکام ہو کر ایتھوپیا بھی بن گئے تو ہم نے یہاں سے بھاگ کر کہاں جانا ہے؟ ہم اسی مٹی کے خاک نشیں ہیں اور ہمیں اپنے آبائو اجداد کی اسی مٹی میں دفن ہونا ہے۔ ہمیں اسی مٹی کی بھینی خوشبو بھاتی ہے۔ دنیا میں جہاں بھی جائیں، ہمیں ہفتے بعد اپنی سوہنی دھرتی کیلئے دل اداس ہو جاتا ہے ہجرت کرنیوالوں کو انکا روشن مستقبل مبارک انہیں چکاچوند روشنیاں اچھی لگ گئیں ہماری فکر چھوڑیں ہم انہی اندھیروں میں ٹٹولتے ٹٹولتے آگے بڑھ جائینگے یا تہہ خاک چلے جائیںگے۔ اوورسیز کو انکے نئے وطن اور سنہرے خواب مبارک ہمیں تپتے تندور میں چھوڑ کر جانیوالے اگر ہمارے جلنے پر تالیاں بجاتے ہیں تو بجاتے رہیں ہم اسی آگ سے گل وگلزار بنالیں گے یا خاک ہو جائینگے دونوں صورتوں میں اپنی مٹی سے تو جڑے رہیں گے۔

یہ ملک نہ میری مرضی سے بنا ہے نہ میری مرضی سے چلا ہے۔ پاکستان کی بھارت سے 3 جنگیں ہوئیں، دو بار ہم افغانستان کے اندر لڑی گئی عالمی جنگ میں شریک رہے ۔ضروری نہیں کہ ہمارا ریاست کی جنگی پالیسی سے مکمل اتفاق ہو۔ مگر جو گزر گیا اور جو فیصلے ہو گئے اب انہیں واپس تو نہیں لایا جا سکتا۔ اب ان غلط فیصلوں کو بھی ماننا پڑیگا اور انکے نتائج بھی بھگتنا پڑیں گے ۔اسی طرح پاکستان نے اپنے دفاع کیلئے ایٹم بم بنانے کا فیصلہ کیا۔ ہو سکتا ہے آج ہم میں سے کوئی کہے کہ اس بم پر اربوں ڈالر خرچنے کی بجائے صحت اور تعلیم پر لگائے جاتے تو ملک کی تقدیر بدل جاتی۔ مگر اس وقت کی قیادت نے اس وقت کے حالات کے مطابق ایٹم بم بنانے کا فیصلہ کرلیا اور پھر اسے بنا کر دکھا دیا۔ جب آپ نیو کلیئر طاقت بن گئے تو پھر دنیا کیلئے ایک بڑا خطرہ بھی ہیں۔ افغانستان کی جنگوں، بھارت سے مخاصمت اور ایٹم بم وہ تین بڑی وجوہات ہیں جنکی وجہ سے ہماری سوہنی دھرتی بہت سی بین الاقوامی طاقتوں کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے۔ ہمیں جنگوں سے اختلاف تھا یا ایٹم بم بنانے کے بارے میں شک وشبہ میں مبتلا تھے بھی تو اب وقت گزر چکا۔ جنگیں ہو گئیں، ایٹم بم موجود ہے، اب ہمارے پاس اسے بچانے اور خود کو خوش حالی کے راستے پر ڈالنے کے سوا کوئی اور چارہ ہی نہیں۔

سہیل وڑائج کہتے ہیں کہ لوگوں کے ذہنوں میں کچھ سوالات آج بھی موجود ہیں، مثلا یہ کہ 11 اگست 1947 کو قائد اعظم کی تقریر ملک کو سیکولر بنانے کا اعلان تھا یا نہیں؟ قرارداد مقاصد منظور کرنے سے پاکستان کو فائدہ ہوا یا نقصان؟ یہ تاریخ کے مباحث ضرور ہیں مگر یہ واقعات اب گزر چکے۔ اب انہیں ماننے اور آگے بڑھنے کے لئے حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ 1973ء کا آئین، قرارداد مقاصد اور جناح صاحب کی تقریر کی روشنی میں پاکستانی قوم کا متفقہ اجتہاد ہے اور اس اجتہاد کے بعد اس میں مزید تبدیلوں اور اجتہاد کی پوری گنجائش موجود ہے۔ 1973ء کے آئین میں اسلام بھی ہے اقلیتوں کے واضح حقوق بھی ہیں جمہوریت کا یقینی قیام بھی ہے اور پارلیمان کی واضح بالادستی کا پیغام بھی ہے۔ یہ متفقہ آئینی دستاویز ہمارے لئے آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ یاد رہے کہ علامہ اقبال نے یہی مشورہ دیا تھا کہ پارلیمان کے ذریعے اجتہاد اور قانون سازی کی جائے وہی یہاں کے باشندوں کیلئے سودمند ہو گی۔ ہم اس عمل سے گزر چکے ہمارا آئین 56 اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ جمہوری ہے انسانی حقوق اور آزادیاں اس میں یقینی بنائی گئیں ،نہ رنگ و نسل اور نہ مذہبی امتیازہے، آئین اور قانون سب کیلئے یکساں ہیں آئین کی غیر مترقبہ نعمت ہونے کے باوجود ہم اسلئے آگے نہیں بڑھ پا رہے کہ ہم آئین پر عمل پیرا نہیں ہو پا رہے۔ اگر آج آئین کی عملداری شروع ہو جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔

Back to top button