نواب اکبر بگٹی کی برسی پر بلوچستان میں حملے کس نے کیے ؟

جنرل مشرف کے آمرانہ دور میں ایک فوجی آپریشن کے دوران جام شہادت نوش کرنے والے قوم پرست بلوچ رہنما نواب اکبر خان بگتی کی 18ویں برسی کے موقع پر صوبہ بلوچستان بم دھماکوں سے گونج اٹھا۔ ان حملوں کی ذمہ داری بلوچ قوم پرست تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی یا بی ایل اے نے قبول کی ہے۔ یاد رہے کہ نواب اکبر بگتی نے بلوچستان کے دور دراز پہاڑی علاقے میں ایک غار کے اندر مشرف کے بھیجے ہوئے فوجی دستوں سے لڑائی کے دوران جام شہادت نوش کیا تھا۔ 26 اگست 2006 کو شہید ہونے والے نواب اکبر بگتی کی برسی سے ایک روز پہلے 25 اگست کو بلوچستان کے مختلف شہروں بشمول کوئٹہ، گوادر، قلات، مستونگ، لسبیلہ، سبی اور تربت میں سیکیورٹی فورسز پر حملے اور فائرنگ کے درجنوں واقعات رپورٹ ہوئے۔ قلات میں بلوچ قوم ہرستوں کی جانب سے حملوں کے باعث کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والی قومی شاہراہ کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا۔ تاہم حملوں کے دوران سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو پہنچنے والے نقصانات کی حکومتی یا فوج کی جانب سے تاحال کوئی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔

اکبر بگٹی نے ذلت کی زندگی پر شہادت کو ترجیح کیوں دی؟

میڈیا رپورٹس کے مطابق بلوچستان کے مختلف اضلاع میں بم دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات میں اموات کی رپورٹس موصول ہوئی ہیں۔ بعض علاقوں میں مسلح افراد کی جانب سے قومی شاہراہوں کو ناکے لگا کر بند کرنے اور بسوں کو روک کر مسافروں کو اتارنے کی بھی اطلاعات ہیں۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب کی سرحد پر واقع بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل کے علاقے راڑہ شم میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب مسلح افراد نے قومی شاہراہ کو ناکہ لگا کر بند کر دیا۔ یہ شاہراہ بلوچستان کو پنجاب سے ملاتی ہے۔ اس دوران 23 ایسے مسافروں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا جن کے شناختی کارڈز سے ان کے صوبہ پنجاب سے تعلق کی تصدیق ہوئی تھی۔ ضلع موسیٰ خیل کے سپرنٹنڈنٹ پولیس ایوب اچکزئی نے ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس واقعے میں 23 افراد ہلاک جب کہ دو زخمی ہوئے ہیں۔ موسیٰ خیل میں جس مقام پر یہ واقعہ پیش آیا وہاں مسلح افراد نے 16 سے زائد کوئلے سے لدے ٹرکوں اور دیگر گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا۔

بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہ رند نے تصدیق کی ہے کہ بلوچستان میں مختلف مقامات پر دہشت گرد حملے کیے گئے ہیں جن میں سے دو مقامات پر سیکیورٹی فورسز نے حملوں کو ناکام بنایا ہے شاہد رند نے کہا کہ موسیٰ خیل میں مسافروں کو بسوں سے اتار کر شناخت کے بعد مارا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس صورتِ حال کا سامنا ہے اس میں سیاسی سٹیک ہولڈرز سمیت سب کو مل کر حالات بہتر طنانے ہی کوشش کرنا ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ موسیٰ خیل کا علاقہ ڈی جی خان سے منسلک ہے۔ ایسے پہاڑی علاقوں میں شاہراہیں قومی شاہراہیں نہیں ہوتیں لہازا یہاں سیکیورٹی کم ہوتی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ بلوچ عسکریت پسندوں کی جانب سے موسیٰ خیل میں کی گئی افسوسناک واردات میں سیکیورٹی اداروں اور صوبائی حکومت کی کوتاہی نظر آتی ہے حالانکہ یہ کارروائی رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کی گئی۔ اس دوران سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز زیرِ گردش ہیں جن میں قلات میں سیکیورٹی اہلکاروں کی گاڑیاں جلتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔

دوسری جانب قلات میں انتظامیہ نے تصدیق کی ہے کہ عسکریت پسندوں کے ساتھ رات گئے تک جھڑپیں ہوئیں۔ اس دوران لیویز کے چار اہلکار اور ایک قبائلی شخصیت سمیت آٹھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ قلات میں مسلسل فائرنگ اور مواصلاتی نظام میں خلل پڑنے کے باعث رابطوں میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ قلات میں حملوں کے باعث کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کو بھی ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کیا گیا ہے۔

دودری جانب ضلع بولان کے ایس ایس پی نے چھ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے، ان کا کہنا تھا کہ چار لاشیں قومی شاہراہ سے کولپور کے مقام پر ملی ہیں جب کہ دو لاشیں ایک تباہ شدہ پل کے نیچے دبی ہوئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مقتولین کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ان مقتولین کو بھی شناختی کارڈ چیک کرکے قتل کیا گیا اور ان کا تعلق بھی صوبہ پنجاب سے ہے۔ اس دوران بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں بائی پاس کے قریب مسلح افراد نے فرنٹیئر کور کے ایک کیمپ پر بھی حملہ کیا۔ سیکیورٹی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس دوران پانچ حملہ آوار مارے گئے۔ تاہم فورسز کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں تاحال کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے اور حکام نے سرکاری طور پر بھی عسکریت پسندوں کی ہلاکت کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ لسبیلہ حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم ‘بلوچ لبریشن آرمی’ یعنی بی ایل اے نے قبول کی ہے۔

تنظیم کے ترجمان جیئند بلوچ نے سوشل میڈیا پر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والے حالیہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے ‘آپریشن ہیروف’ کا نام دیا ہے۔ بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ نے سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ بی ایل اے کے فدائی یونٹ مجید بریگیڈ نے لسبیلہ میں فورسز کے کیمپ پر حملہ کیا۔ ان حملوں میں سیکیورٹی فورسز کی ہلاکتوں کی تاحال حکومتی سطح پر کوئی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔

لسبیلہ کے علاوہ بلوچستان کے ضلع سبی، تربت اور کوئٹہ میں بھی فائرنگ اور بم دھماکوں کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ بعض واقعات میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکار زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔اس کے علاوہ بلوچستان کے ضلع گوادر کے علاقے جیوانی میں بھی اتوار کو مسلح افراد نے ایک تھانے کو نشانہ بنایا۔ اطلاعات کے مطابق مسلح افراد نے پولیس کی تین گاڑیوں کو نذر آتش کیا اور اپنے ساتھ اسلحہ لے گئے۔ حملہ آوروں نے تھانے میں موجود اہلکاروں کو کئی گھنٹوں تک یرغمال بنائے رکھا۔ تاہم اس حملے میں کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

Back to top button