افغان طالبان نے اپنی عبوری حکومت کو مستقل حکومت بنا  دیا

افغان طالبان نے ملک میں جامع، نمائندہ اور شراکتی حکومت کی تشکیل کے وعدےکو پس پشت ڈالتے ہوئے افغانستان میں مستقل آمریت کا اعلان کر دیا۔ افغان طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے حکومتی وزرا اور دیگر اعلیٰ حکام کو اپنے عہدوں سے "قائم مقام” یا "عبوری” کا لیبل ہٹانے کا حکم دے دیا ہے۔ مبصرین کے مطابق ملا ہیبت اللہ کے حکم سے افغانستان بارےعالمی برادری کی امیدیں مایوسی میں بدلتی دکھائی دے رہی ہیں کیونکہ طالبان امیر کا حکم صرف ایک علامتی تبدیلی نہیں بلکہ ایک واضح اشارہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کا اقتدار عارضی نہیں بلکہ مستقل ہے یعنی مستقبل قریب میں اس میں تبدیلی کا کوئی امکان موجود نہیں۔

خیال رہے کہ 2021 میں امریکی انخلا اور طالبان کی واپسی کے بعد، ابتدا میں جو عبوری حکومت تشکیل دی گئی وہ مکمل طور پر طالبان کی سینیئر قیادت پر مشتمل تھی۔ اس میں نہ خواتین کو نمائندگی ملی، نہ ہی اقلیتوں یا دیگر سیاسی دھڑوں کو حکومت کا حصہ بنایا گیا تھا۔ اس وقت طالبان حکام کی جانب سے عالم برادری کو یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ افغانستان میں حکومت کا عارضی سیٹ اپ تشکیل دیا گیا ہے مستقبل میں ایک جامع حکومت تشکیل دی جائے گی جس میں خواتین سمیت تمام طبقات فکر کی نمائندگی ہو گی۔ طالبان کی جانب سے کئے گئے وعدوں پر امید تھی کہ بین الاقوامی دباؤ یا اندرونی عوامی مطالبات، افغان طالبان کو ایک جامع حکومت کی طرف مائل کریں گے۔ مگر ملا ہیبت اللہ کی جانب سے "قائم مقام” کے لیبل کے خاتمے کا حکم اس حوالے سے تمام امیدوں کو مایوسی میں بدل دیا ہے۔ مبصرین کے مطابق اخوندزادہ کے حکم نے واضح کر دیا ہے کہ ہم کہیں نہیں جا رہے اور یہی حکومتی سیٹ اپ آگے بھی چلتا رہے گا۔ اس فیصلے نے طالبان کی نظریاتی یکسوئی اور اقتدار پر مکمل کنٹرول کی بھی تصدیق کر دی ہے۔

ناقدین کے مطابق موجودہ طالبان قیادت کا اندازِ حکمرانی اپنے بانی ملا عمر سے مختلف نہیں۔ جس طرح ملا عمر نے 1996 سے 2001 تک ایک مطلق العنان حکمران کی حیثیت سے بند دروازوں کے پیچھے حکومت کی تھی، ویسے ہی ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ بھی پس پردہ رہ کر فیصلے کرتے نظر آتے ہیں۔ جس میں نہ اصلاحات کی گنجائش ہے، نہ اختلاف کی اجازت اور نہ ہی شراکتِ اقتدار کا کوئی تصور موجود ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب افغانستان کو سیاسی استحکام، نسلی ہم آہنگی، اور اقتصادی بحالی کی شدید ضرورت ہے۔ تاہم طالبان کا سخت گیر، غیر نمائندہ، اور دقیانوسی طرزِ حکومت نہ صرف افغان عوام کو مایوس کر رہا ہے بلکہ دنیا کو بھی افغانستان سے مزید دور کرتا دکھائی دے رہا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے بقول طالبان کی موجودہ صورتحال میں عالمی برادری کا کردار انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے تاہم طالبان کی تمام وعدہ خلافیوں کے باجود مغربی ممالک کی پراسرار خاموشی اور بے عملی کا خمیازہ افغان عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ معاشی بحران، خواتین پر سخت پابندیاں، اور بنیادی آزادیوں کی عدم دستیابی نے افغانی عوام کی زندگی کو بدترین بنا دیا ہے۔ طالبان کی حکومت نے توخود پر سے "قائم مقام” کا لبادہ اتار دیا ہے تاہم عالمی برادری نے افغان عوام کے لیے اپنی بے اعتنائی کا "عارضی” رویہ مستقل بنا لیا ہے۔

ناقدین کے مطابق طالبان نہ انتخابات کے قائل ہیں، نہ پارلیمانی نظام کے۔ وہ اقتدار کو دینی فریضہ اور سیاسی حق نہیں بلکہ اپنی ملکیت سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق حکومت سازی میں نہ سوال کی گنجائش ہے، نہ جواب دہی کی کوئی فکر ہے۔ افغان طالبان کی غلط پالیسویں کی وجہ سے افغانستان کے اندر بے چینی اور عدم اطمینان بڑھتا دکھائی دے رہا ہے، مگر طالبان کے سخت کنٹرول اور متبادل قیادت کے فقدان نے عوامی غصے کو کسی مؤثر سیاسی تحریک میں ڈھلنے سے روک رکھا ہے۔ مبصرین کے بقول طالبان کا "قائم مقام” ہٹانا صرف ایک علامتی اقدام نہیں بلکہ ایک نظریاتی اعلان ہے کہ یہ حکومت مستقل ہے، اور اس میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں۔ طالبان کی حکومت نے اپنے لیے مستقل مزاجی کا انتخاب کر لیا ہے۔ اب عالمی برادری کو بھی مستقل اصول، مستقل پالیسی، اور مستقل دباؤ کا راستہ اپنانا ہوگا، ورنہ یہ بحران مستقل المیے میں بدل جائے گا۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!