ایف آئی اے کا بڑاایکشن:جوئے میں ملوث 45موبائل ایپس بند

پاکستان میں آن لائن بیٹنگ اور جوا کھیلنے والی درجنوں موبائل ایپلیکیشنز نہ صرف سرگرم ہیں بلکہ ان کی تشہیر میں نامور شخصیات بھی پیش پیش رہتی ہیں۔ بڑے سپورٹس ایونٹس میں ان ایپس کی بطور اسپانسر موجودگی نے اس رجحان کو مزید فروغ دیا ہے۔ تاہم اب نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی یعنی این سی سی آئی اے نے بڑا قدم اٹھاتے ہوئے آن لائن جوئے میں ملوث 45 سے زائد موبائل ایپلیکیشنز کو غیرقانونی قرار دے دیا ہے۔

این سی سی آئی اے حکام کے مطابق یہ ایپلیکیشنز نہ صرف جوا کھیلنے اور آن لائن بیٹنگ کی سہولت فراہم کر رہی تھیں بلکہ ملکی قوانین کی کھلی خلاف ورزی بھی کر رہی ہیں۔ خیال رہے کہ معروف یوٹیوبر ڈکی بھائی کو بھی ان غیر قانونی ایپس کی تشہیر کے الزامات پرلاہور ایئرپورٹ سے حراست میں لیا گیا ہے ۔ ڈکی بھائی کے خلاف کارروائی کے بعد ہی اب نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی نے نہ صرف مجموعی طور پر 45 سے زائد  ایسی ایپس کو غیرقانونی قرار دے دیا ہے بلکہ ان کا استعمال یا تشہیر دونوں کو جرم قرار دے دیا ہے۔ ایجنسی نے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کو ان غیرقانونی ایپس کو فوری بلاک کرنے کی درخواست کے علاوہ شہریوں پر بھی زور دیا ہے کہ وہ محتاط رہیں اور غیرتصدیق شدہ ایپس کو ڈاؤن لوڈ یا استعمال کرنے سے گریز کریں تاکہ کسی مالی فراڈ یا ذاتی معلومات کے افشا ہونے سے بچ سکیں۔

ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ یہ ایپس نہ صرف جوا کھیلنے کو فروغ دیتی ہیں بلکہ غیرقانونی مالی لین دین، منی لانڈرنگ اور پرائیویسی کی خلاف ورزی جیسے سنگین خدشات بھی پیدا کرتی ہیں۔ یہ ایپس نہ صرف بیٹنگ کو فروغ دیتی ہیں بلکہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے غیرمنظم مالی سرگرمیوں کی بھی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ جوا کھیلنے والی ایپس کے علاوہ اس فہرست میں غیرریگولیٹڈ فاریکس اور بائنری ٹریڈنگ پلیٹ فارمز بھی شامل ہیں۔ حکام کے مطابق یہ پلیٹ فارمز کسی مناسب نگرانی کے بغیر کام کر رہے تھے، جس سے مالی فراڈ اور غیرقانونی رقوم کی منتقلی کے خدشات بڑھ گئے تھے۔ جس کے بعد ان پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

این سی سی آئی اے نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ پابندی کی زد میں آنے والی کچھ ایپلیکیشنز ایسی ہیں جو شہریوں کی ذاتی معلومات جیسے کہ سم کارڈ اور موبائل نمبر کی تفصیلات فراہم کرتی ہیں۔ حکام نے خبردار کیا کہ اس قسم کی ایپس پرائیویسی کی خلاف ورزی، حساس ڈیٹا کے غلط استعمال اور ممکنہ شناخت کی چوری کا باعث بن سکتی ہیں۔ ان ایپس کو غیرقانونی قرار دینے کا مقصد غیر مجاز ڈیٹا اکٹھا کرنے کے خطرات کو اجاگر کرنا ہے۔

تاہم یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ بیٹنگ ایپس ملکی سکیورٹی اور ہماری ذاتی معلومات کو کیسے چراتی ہیں؟ اس حوالے سے سائبر سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایپس نہ صرف آپ کی ذاتی معلومات چوری کر سکتی ہیں بلکہ بعض اوقات نجی تصاویر حاصل کر کے انہیں ڈرا دھمکا بھی سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ چونکہ یہ غیرقانونی ایپس ہوتی ہیں، یہ قومی سلامتی کے خلاف بھی سرگرم ہو سکتی ہیں۔‘ ’بیٹنگ والی آن لائن ایپس صارفین کا ڈیٹا اور تصاویر چُرا سکتی ہیں، کیونکہ ان میں وائرس ڈالا جاتا ہے جو فون سے پاسورڈزاور تصاویر سمیت سب معلومات چرا لیتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اکثر اوقات یہ ایپس ڈاؤن لوڈنگ کے دوران کچھ ایسی پرمیشن مانگتی ہیں جن سے صارف کا قیمتی ڈیٹا چوری ہو جاتا ہے، اور بعد میں ہراسانی یا مالی فراڈ جیسے واقعات پیش آ سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایسی ایپس سے مالی فراڈ کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ یہ صارف کو اپنا بینک اکاؤنٹ لنک کرنے یا اس کی تفصیلات فراہم کرنے پر مجبور کرتی ہیں، جس کے بعد اکاؤنٹ سے رقم غائب ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ مزید یہ کہ اگر ان ایپس کے ذریعے ٹرانزیکشن کی جائے تو مالی نقصان کا اندیشہ مزید بڑھ جاتا ہے۔‘ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا چونکہ ’یہ ایپس ریگولیٹ نہیں ہوتیں، اس لیے ان کے ذریعے منی لانڈرنگ جیسے جرائم بھی ممکن ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے اتھارٹیز نے انہیں غیرقانونی اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے دیا ہے۔‘

Back to top button