کیا صدر ٹرمپ نے اسرائیل کو تباہی سے بچانے کے لیے سیز فائر کروایا ؟

امریکی صدر ٹرمپ نے قطر میں اپنے فوجی اڈوں پر ایرانی حملوں کے باوجود جوابی حملے کی بجائے اسرائیل اور ایران کے مابین سیز فائر صرف اسلیے کروایا کہ ایرانی میزائلوں نے 30 فیصد سے زیادہ تل ابیب کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا تھا اور اب عوام وزیراعظم نے نیتن یاہو کے خلاف ہوتے جا رہے تھے۔

معروف لکھاری اور تجزیہ کار کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر اپنی تازہ تحریر میں کہتے ہیں کہ ایران پر اسرائیلی حملوں کے بعد اس کا سرپرست امریکہ بھی جنگ میں شامل ہو گیا۔ انکل سام کی خواہش تھی کہ ایرانی حکومت ختم ہو اور اُس کا ایٹمی پروگرام تباہ ہو جائے۔ لیکن یہ دونوں اہداف پورے نہیں ہوپائے۔ خامنہ ای کی حکومت قائم اور کھڑی ہے۔ جہاں تک ایران کے ایٹمی پروگرام کا تعلق ہے امریکی میڈیا خود یہ بتا رہا ہے کہ ایران کا نیوکلیئر پروگرام تمام تر حملوں کے باوجود صرف چند مہینے پیچھے گیا ہے اور اسکی افزودہ یورینیم بھی محفوظ مقامات پر شفٹ کر دی گئی تھی۔ اسرائیلی وزیراعظم اتنا کامیاب ضرور ہوا کہ اس نے صدر ٹرمپ کو ایرانی تنصیبات پر بمباری کرنے کیلئے تیار کر لیا۔ لیکن وہ امریکہ کو اس جنگ میں ملوث رکھے رہنے میں کامیاب نہیں ہو پایا۔

ایاز امیر کہتے ہیں کہ ایران کی تنصیبات پر  حملے کے بعد ناقدین کے علاوہ ٹرمپ اپنے حمایتیوں کی طرف سے بھی شدید تنقید کی زد میں آ گئے تھے۔ دوسری طرف ایرانی میزائیلوں سے اسرائیل کی چیخیں نکل گئی تھیں اور حملے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے، چنانچہ ٹرمپ نے ایک اور قلابازی کھاتے ہوئے جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔  اسرائیل کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ اُسکے شہروں اور رہائشی علاقوں پر میزائیل حملے ہوئے۔ آخر دم تک اسرائیل پر میزائل گرتے رہے۔ ایرانی میزائل اسرائیل کے دفاعی نظام کو چیرتے ہوئے اپنے اہداف پر پہنچتے رہے۔ کیا یہ تھوڑا نقصان ہے کہ تل ابیب میں تمام اہم سرکاری تنصیبات ایرانی میزائلوں کے زد میں آئیں، حتیٰ کہ موساد کے ہیڈ کوارٹر پر بھی ایک بڑ حملہ ہوا۔ بین گوریان ایئرپورٹ پر میزائل گرے۔ حیفہ کی بندرگاہ ایرانی میزائلوں کا نشانہ بنی۔ حیفہ میں موجود آئل ریفائنری حملوں کی زد میں آئی۔ بَرشیبا تک ایرانی میزائل جا لگے۔

ایاز امیر کے مطابق اس میں تو دو رائے نہیں کہ عسکری پلڑا اسرائیل کا بھاری تھا کیونکہ جس قسم کی امریکی امداد اسرائیل کو ملتی ہے اُسکا پلڑا بھاری ہونا ہی تھا۔ جدید ترین امریکی لڑاکا طیارے اسرائیلی ایئرفورس میں ہیں۔ پہلے دن سے اسرائیل نے ایران پر فضائی برتری قائم کر لی تھی۔ ایران کے پاس تو مقابلے کے لڑاکا جہاز ہیں ہی نہیں۔ لیکن اس کے باوجود اپنے میزائل اثاثوں پر انحصار کرتے ہوئے ایران نے اسرائیل کو بھرپور جواب دیا۔ صدر ٹرمپ کی بھی زبان بدلتی رہی۔ شروع میں تو اُنہوں نے کہا کہ ایران فوراً غیر مشروط شکست مان لے۔ لیکن آخر میں جب صدر ٹرمپ نے جنگ بندی کا اعلان کیا تو اسرائیل اور ایران دونوں کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ لچک ہو تو ایسی ہو۔ دراصل وہ خود بھی جنگ میں پھنس رہے تھے اس لیے خوبصورتی سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔ ویسے بھی ایران اسرائیل اور امریکہ دونوں کے لیے لوہے کا چنا ثابت ہوا۔

ایران نے کبھی یہ خواہش ظاہر نہیں کی کہ وہ جوہری ہتھیاروں کا حصول چاہتا ہے لیکن اسرائیلی اور امریکی غنڈہ گردی کے بعد ایرانی قیادت کو یہ سمجھ آ جانی چاہیے کہ اگر اس کے پاس جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ ہوتا تو اسرائیل نے ایران پر حملے کا کبھی سوچنا بھی نہیں تھا۔ اب ایرانی قیادت کو جیسے بھی ہو جوہری ہتھیاروں کے حصول کی طرف تیزی سے جانا چاہیے۔ اسی میں اُس کی سلامتی ہے ورنہ اسرائیل آئندہ بھی ایسا کر سکتا ہے۔  اسرائیلی غنڈہ گردی کو روکنے کیلئے ایران کو بغیر تامل کے جوہری ہتھیاروں کے حصول کی طرف جانا چاہیے۔

کیا پاکستانی نیوکلیئر صلاحیت ختم کرنے کا منصوبہ بن چکا ہے؟

ایاز امیر کہتے ہیں کہ مغربی تسلط اور ٹھیکیداری بہت ہو چکی‘ کتنی ہی مسلم ممالک کی تباہی ہو چکی ہے۔ عراق‘ لیبیا‘ شام ، امریکہ کی دلی تمنا تو یہی تھی کہ ایران کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو۔ لیکن ایران ثابت قدم رہا اور مزاحمت کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔ اس جنگ کے دوران دل میں یہی خواہش اٹھتی تھی کہ ہم جو مسلمان کہلاتے ہیں ہم سب میں ایران جیسی ہمت پیدا ہو جائے۔ ایک اور بات یہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیار تو نہیں بنا پایا لیکن اس نے بیلسٹک میزائل ضرور بنا لیے جنہوں نے جنگ میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ ایران نے ایسے بیلسٹک میزائل استعمال کیے جن کا اسرائیل کے پاس کوئی توڑ نہیں تھا۔ ان میں سے کچھ ہائپر سونک میزائل بھی تھے جن کے سامنے اسرائیلی دفاعی نظام بے اثر ثابت ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران کے پاس وہ سائنسی دماغ تو ہیں جنہوں نے میزائل پروگرام کو اتنی تقویت پہنچائی۔

لیکن ایران کی جانب سے افزودہ یورینیم امریکی حملوں سے پہلے محفوظ مقامات پر منتقل کر دینے کے انکشاف کے بعد اہم ترین سوال یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ نے اس بدمعاشی سے کیا حاصل کیا؟ ہاں ایران اس بدمعاشی سے یہ فائدہ ضرور اٹھائے گا کہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے نکل جائے گا۔ اگر ایسا ہو گیا تو عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے معائنہ کار دوبارہ کبھی ایران میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔ اس لحاظ سے پاکستان سمجھدار رہا‘ این پی ٹی پر کبھی دستخط نہیں کیے اور آئی اے ای اے کے انسپکٹرز کے پاکستان آنے کا تو کبھی سوال پیدا نہ ہوا۔ ہم کہیں اس چکنی زمین پر آ جاتے تو کہیں کے نہ رہتے۔ عالمی جوہری توانائی ایجنسی کا نرغہ ایسے ہوتا کہ ہمارا ایٹمی پروگرام کبھی پایۂ تکمیل نہ پہنچتا۔ اب تو شک نہیں رہنا چاہیئے کہ کمزوروں کیلئے اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں۔ جو ملک اپنا دفاع نہیں کر سکتا وہ اوروں کے رحم و کرم پر رہ جاتا ہے۔ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی استطاعت ہونی چاہیے اور اپنے بازو مضبوط ہونے چاہئیں۔

Back to top button