پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی بندش: تاجروں کو کروڑوں کا نقصان

 

 

 

پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ جھڑپوں کے بعد سرحدی کشیدگی ایک سنگین بحران میں تبدیل ہو گئی ہے۔ افغان طالبان حکومت کی جانب سے تحریک طالبان کی پشت پناہی جاری رکھنے کے ردعمل میں پاکستانی حکام نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دی ہے۔ اس فیصلے نے نہ صرف افغان تاجروں کو شدید مالی نقصان پہنچایا ہے بلکہ پاکستان کی بندرگاہوں، کسٹمز اور تجارتی نظام پر بھی دباؤ بڑھا دیا ہے۔

 

وفاقی حکومت کی ہدایت کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے کراچی کی بندرگاہوں سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی نقل و حمل روکتے ہوئے تمام گیٹ پاسز منسوخ کر دیے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم پر 291 افغان کنٹینرز پھنسے ہوئے ہیں۔ 500 کنٹینرز چمن، 400 کنٹینرز طورخم، 100 غلام خان اور 100 کنٹینرز خرلاچی میں رُکے ہوئے ہیں۔ مزید سینکڑوں کنٹینرز بحری جہازوں پر ہیں جو کراچی پورٹ پر لنگر انداز ہونے کے منتظر ہیں۔ بندرگاہوں پر سامان اُتار کر رکھنے کی جگہ ختم ہو چکی ہے۔ طورخم کے گودام مکمل طور پر بھر چکے ہیں۔

 

کراچی پورٹ حکام کے مطابق، وفاقی حکومت کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے افغانستان جانے والے کنٹینرز کو گاڑیوں سے آف لوڈ کر دیا گیا، جس سے سٹوریج کی شدید کمی پیدا ہو گئی ہے۔ پاکستان افغانستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے صدر جنید مکدا کے مطابق، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت روزانہ دونوں ممالک کے مابین تقریباً ایک ہزار کنٹینرز کی نقل و حرکت ہوتی ہے، جو اب مکمل طور پر رُک چکی ہے۔ چمن میں بابِ دوستی چھٹے روز بھی بند ہے۔ پاک افغان سرحد کے دونوں جانب سامان سے لدے اور خالی ٹرک طویل قطاروں میں کھڑے ہیں۔ افغانستان سے آنے والے انگور اور انار سے بھرے کم از کم 130 ٹرک سرحد پار کھڑے ہیں، جنکے خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ خوردنی تیل، سبزیاں، کپڑے اور دیگر اشیائے ضرورت سے بھری ہوئی درجنوں گاڑیاں بھی چمن میں پھنسی پڑی ہیں۔ افغانستان سے پاکستان آنے والی 200 سے زائد گاڑیاں افغان حدود میں رُکی ہوئی ہیں۔ کئی کلیئرشدہ گاڑیوں کو گولہ باری کے باعث نقصان پہنچا ہے۔

 

تاجر برادری کے مطابق، پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی بندش کے باعث اب تک افغان تاجروں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔

 

اگرچہ حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر پابندی کا فیصلہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر کیا گیا، لیکن اس کے معاشی اثرات پاکستان پر بھی پڑ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ کراچی کی بندرگاہوں پر بھیڑ کی صورتِ حال پیدا ہو چکی ہے۔ نئی شپمنٹس کی آمد سے سٹوریج بحران مزید سنگین ہو رہا ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک کے لیے روانہ ہونے والے ٹرانزٹ کنٹینرز بھی راستے میں قومی شاہراہ کے ہوٹلوں پر کھڑے ہیں۔ اسکے علاوہ کسٹمز کلیئرنگ میں تاخیر سے پاکستان کی برآمدی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔ بندرگاہوں پر سامان رُکنے سے ٹرمینل فیس، شپنگ چارجز اور لاجسٹک اخراجات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

افغانستان پاکستان مخالف دہشت گردوں کی پناہ گاہ کیوں بنا ؟

معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق، اگر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی بندش طویل ہوئی تو نہ صرف دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات متاثر ہوں گے بلکہ پاکستان کو بھی روزانہ کروڑوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ ایسے میں تاجر برادری نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ صورتِ حال کو جلد معمول پر لایا جائے تاکہ کاروباری نقصان، لاجسٹک رکاوٹوں اور اشیائے ضروریہ کی قلت سے بچا جا سکے۔ سرحد پر پھنسے ہوئے ڈرائیوروں نے مطالبہ کیا ہے کہ کلیئرشدہ گاڑیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے کیونکہ گولہ باری کے باعث کئی ٹرکوں کو نقصان پہنچا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بحران صرف تجارتی نہیں بلکہ سفارتی اور معاشی سطح پر بھی سنگین نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ اگر دونوں ممالک نے جلد مذاکرات نہ کیے تو نقصان کی شدت بڑھتی جائے گی۔

 

Back to top button