افغانستان پاکستان مخالف دہشت گردوں کی پناہ گاہ کیوں بنا ؟

افغانستان ایک بار پھر ٹی ٹی پی اور القاعدہ سمیت مختلف دہشتگرد اور عسکریت پسند تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہ بن گیا۔ افغان طالبان کے دعووں کے برعکس اقوامِ متحدہ کی سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان اور القاعدہ جیسے عالمی دہشت گرد گروہ نہ صرف افغانستان میں موجود ہیں بلکہ وہاں کھلے عام اپنی عسکری، تربیتی اور نظریاتی سرگرمیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ افغان طالبان کی جانب سے انھیں مکمل سپورٹ حاصل ہے۔
خیال رہے کہ 24 جولائی 2025 کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو پیش کی گئی حالیہ رپورٹ نے افغانستان میں القاعدہ اور ٹی ٹی پی کی منظم موجودگی کو بے نقاب کر دیا ہے اور واضح کر دیا ہے کہ طالبان حکومت نے ان دہشت گرد گروہوں کو نہ صرف کھلی چھوٹ دے رکھی ہے بلکہ وہ ان کی سہولت کاری میں ملوث بھی دکھائی دیتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ القاعدہ کے اکثریتی عرب نژاد جنگجو افغانستان میں غزنی، ہلمند، قندھار، کنڑ، ارزگان اور زابل سمیت متعدد صوبوں میں سرگرم ہیں، اور وہاں کئی تربیتی مراکز بھی قائم کر چکے ہیں۔ کم از کم تین نئے کیمپ خاص طور پر ٹی ٹی پی اور القاعدہ کے لیے قائم کیے گئے ہیں، جہاں دہشت گردی کی منظم تربیت دی جا رہی ہے۔ رپورٹ کے پیراگراف نمبر 93 میں ٹی ٹی پی کی عسکری طاقت کی تشویشناک تفصیلات دی گئی ہیں، جن کے مطابق تنظیم کے پاس تقریباً 6 ہزار جنگجو موجود ہیں، اور وہ جدید ہتھیاروں سے لیس ہے، جنہوں نے اس کے حملوں کو مزید ہلاکت خیز بنا دیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان گروہوں کی موجودگی خطے کے امن، بالخصوص پاکستان، وسطی ایشیا اور دیگر ہمسایہ ممالک کے لیے سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ طالبان کے زیرِ اثر افغانستان میں کم از کم دو درجن دہشت گرد گروہوں کو آزادانہ سرگرمیوں کی اجازت حاصل ہے، جن میں سب سے بڑا اور منظم گروہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ہے۔
اقوامِ متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم کی رپورٹ کے مطابق، طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان ایک مرتبہ پھر دہشت گرد گروہوں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے۔ ٹی ٹی پی کے جنگجو بڑی تعداد میں افغانستان کے مشرقی اور جنوبی علاقوں میں موجود ہیں۔ القاعدہ نے نہ صرف افغانستان میں دوبارہ اپنے نیٹ ورک کو منظم کیا ہے بلکہ وہ مختلف تربیتی کیمپس بھی چلا رہے ہیں۔ افغان طالبان اور ان گروہوں کے درمیان نظریاتی ہم آہنگی، تعاون اور بعض اوقات عسکری اشتراک بھی پایا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کا دعویٰ رہا ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو کسی بھی گروہ کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دعویٰ محض بین الاقوامی دباؤ سے بچنے کی کوشش ہے، جسے زمینی حقائق رد کر رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق اقوام متحدہ کی رپورٹ میں سامنے آنے والے انکشافات نے پاکستان کے ان دیرینہ خدشات کی تصدیق کر دی ہے جو اسلام آباد بارہا عالمی فورمز پر دہراچکا ہے۔ پاکستان طویل عرصے سے افغان سرزمین سے ہونے والے دہشت گرد حملوں پر تشویش ظاہر کرتا رہا ہے۔ خاص طور پر ٹی ٹی پی کی افغانستان سے آپریٹنگ صلاحیت نے پاکستان کی سیکیورٹی کے لیے سنگین خطرات پیدا کیے ہیں۔ 2021 سے لے کر اب تک پاکستان میں ہونے والے متعدد دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی، جس کی نشاندہی خود پاکستانی حکام اور بین الاقوامی رپورٹس میں کی گئی ہے۔ دفاعی ماہرین کے مطابق اقوام متحدہ کی رپورٹ صرف ایک سکیورٹی انتباہ نہیں، بلکہ افغان طالبان کی ناکام اور بدنیتی پر مبنی پالیسیوں کی چارج شیٹ ہے۔ اگر عالمی برادری، خاص طور پر خطے کے ممالک، اب بھی خاموش رہے تو افغانستان دوبارہ عالمی دہشت گردی کا مرکز بن سکتا ہے، جس کے اثرات سرحدوں سے کہیں آگے محسوس کیے جائیں گے۔
مبصرین کے مطابق اقوام متحدہ کی رپورٹ نے افغان حکومت کے اس دیرینہ مؤقف کو یکسر مسترد کر دیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گی۔ درحقیقت، شواہدظاہر کرتے ہیں کہ طالبان حکومت دہشت گرد گروہوں کے ساتھ اپنے روابط نہ صرف برقرار رکھے ہوئے ہے بلکہ بعض معاملات میں ان کی سرپرستی بھی کرتی ہے۔ جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔
سیکیورٹی تجزیہ کار، ڈاکٹر حسین عسکری کے مطابق "طالبان کے القاعدہ اور ٹی ٹی پی سے تاریخی اور نظریاتی روابط ہیں، جنہیں محض سیاسی بیانات سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ان گروہوں کا آپس میں تعاون، مشترکہ مفادات پر مبنی ہے، جس میں پاکستان مخالف کارروائیاں بھی شامل ہیں۔”دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کے مطابق:”اگر طالبان واقعی غیر جانبدار اور دہشت گردی کے مخالف ہیں تو انہیں ٹی ٹی پی کو افغانستان سے نکالنے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ محض بیانات سے زمینی حقائق نہیں بدلا کرتے۔”
مبصرین کے مطابق افغانستان میں ان دہشتگرد گروہوں کی موجودگی صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ عالمی برادری کو طالبان حکومت پر سفارتی اور سیاسی دباؤ بڑھانا ہوگا تاکہ وہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف سنجیدہ اقدامات کریں جبکہ پاکستان کو چین، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ مل کر انسدادِ دہشت گردی پالیسی پر کام کرنا ہوگا تاکہ افغانستان سے ممکنہ خطرات کا مؤثر جواب دیا جا سکے۔ کیونکہ جب تک طالبان دہشت گرد گروہوں سے اپنے تعلقات مکمل طور پر ختم نہیں کرتے، افغانستان، پاکستان اور پورے خطے کے لیے خطرہ بنا رہے گا۔
