پاکستانی فوج پر حملے کرنے والا کمانڈر حافظ گل بہادر مارا گیا

 

 

 

افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر دہشتگرد حملے کرانے والے مطلوب ترین کمانڈر حافظ گل بہادر کی بالآخر ایک پاکستانی فضائی حملے میں مرنے کی تصدیق ہو گئی ہے۔

 

باخبر ذرائع کے مطابق شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے عسکری کمانڈر حافظ گل بہادر کے بارے میں اطلاع ہے کہ وہ 17 اکتوبر 2025 کو افغانستان کے صوبہ خوست میں پاکستانی ایئر فورس کے فضائی حملے میں مارا گیا ہے اور خفیہ طور پر اس کی لاش کی شناخت بھی کر لی گئی ہے۔ افغانستان سے آپریٹ کرنے والے حافظ گل بہادر کی ہلاکت کو پاکستان کی انسدادِ دہشتگردی مہم میں ایک اہم پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔ذرائع کے مطابق حافظ گل بہادر کے چند قریبی افراد نے اس کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے تاہم شدت پسند طالبان کی جانب سے اس بارے مکمل خاموشی ہے۔

 

حافظ گل بہادر ان شدت پسند رہنماؤں میں شمار کیا جاتا ہے جن پر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سیکیورٹی فورسز پر ہونے والے متعدد خونریز حملوں کی منصوبہ بندی کا الزام عائد تھا۔ تحریک طالبان پاکستان کہ ایک ذیلی گروہ جماعت الفرقان کی قیادت کرنے والے گل بہادر کے جنگجو ماضی میں افغان سرحد پار کر کے پاکستانی سیکیورٹی پر حملے کرتے رہے ہیں۔ اگر اس کی ہلاکت کی تصدیق ہوجاتی ہے تو یہ افغانستان میں موجود ریاست مخالف عناصر کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہو گا۔

 

یاد رہے کہ ماضی میں حافظ گل بہادر کو گڈ طالبان میں شمار کیا جاتا تھا اور وہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر جنگجوؤں کو نکیل ڈالتا تھا۔ تاہم پھر وہ ایک مس گائیڈڈ میزائل بن گیا اور پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے خلاف یہ ہتھیار اٹھا لیے، لہذا ایک فوجی آپریشن کے نتیجے میں اسے اپنے ساتھیوں سمیت پاکستان چھوڑ کر افغانستان فرار ہونا پڑا۔

 

حافظ گل بہادر کا تعلق افغان سرحد کے قریب واقع مداخیل گاؤں سے تھا۔ وہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت جمیعت علمائے اسلام کی طلبہ تنظیم کا سرگرم رکن تھا اور افغانستان فرار ہونے سے پہلے اپنی ذاتی اثر و رسوخ کی وجہ سے مختلف تنازعات میں لوگوں کے تصفیے بھی کرواتا تھا۔ پاکستان افغان حکومت سے کئی مرتبہ حافظ گل بہادر کی حوالگی کا مطالبہ بھی کر چکا تھا۔ ایک زمانے میں گل بہادر نے مقامی جنگجوؤں کے ہمراہ افغان طالبان کے ساتھ مل کر شمالی اتحاد کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا تھا۔ گل بہادر کے حقانی نیٹ ورک کے ساتھ بھی قریبی روابط تھے جس کے سربراہ کمانڈر سراج الدین حقانی اب افغانستان کی عبوری حکومت میں وفاقی وزیر داخلہ ہیں۔

مذاکرات کی ناکامی کے بعد پاک افغان جنگ چھڑنے کا خدشہ

2001 میں امریکا پر نائن الیون حملوں کے بعد جب اتحادی افواج نے افغانستان پر قبضہ کیا تو طالبان، القاعدہ اور وسطی ایشیائی جنگجو بڑی تعداد میں پاکستان کے قبائلی علاقوں خصوصاً وزیرستان میں شفٹ ہوئے، جہاں گل بہادر جیسے مقامی کمانڈروں نے انہیں پناہ فراہم کی۔ رفتہ رفتہ یہ علاقہ طالبان سے منسلک شدت پسندوں کا گڑھ بنتا گیا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

 

Back to top button