بنوں کی فوجی چھاؤنی پر حملے حافظ گل بہادر گروپ نے کئے

4مارچ 2025 کی شام خیبر پختون خوا کے ضلع بنوں میں فوجی چھاؤنی پر شدت پسندوں کے خوفناک خود کش حملوں کی ذمہ داری جیش فرقان محمد نامی جہادی تنظیم نے قبول کر لی ہے۔ اس تنظیم کا تعلق حافظ گل بہادر گروپ سے یے جس پر حکومت نے جولائی 2024 میں بنوں میں ایک ایسے ہی خودکش حملے کے بعد پابندی عائد کر دی تھی۔ ماضی میں حافظ گل بہادر کو اچھے طالبان میں شمار کیا جاتا تھا لیکن فوج کے ساتھ امن معاہدہ ٹوٹنے کے بعد گل بہادر نے بھی طالبان کی طرح سکیورٹی فورسز کے خلاف دہشت گرد کاروائیوں کا اغاز کر دیا۔

مارچ 2025 اور جولائی 2024 میں خودکش حملہ آوروں کا طریقہ واردات ایک ہی جیسا تھا، 2024 میں خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی فوج کے سپلائی ڈپو کے مرکزی دروازے سے ٹکرا دی تھی۔ اس حملے میں پاکستانی فوج کے آٹھ اہلکار اور چار شہری مارے گے تھے۔ اب 2025 میں دو دہشت گردوں نے خودکش حملہ کرتے ہوئے بنوں فوجی چھاونی کی مرکزی دیوار سے اپنی گاڑیاں ٹکرا دیں۔ اس کے بعد درجن بھر شدت پسند کینٹ میں داخل ہو گئے اور اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے تباہی مچا دی۔

سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حملے کی نوعیت 2024 میں ہونے والے حملے سے چار گنا زیادہ ہے۔ انک کہنا تھا کہ حملے کے بعد کچھ حملہ قریبی مسجد میں گھس گئے اور بارود سے بھری یوئی جیکٹیں پھاڑ ڈالیں جس سے مسجد کی چھت زمین بوس ہو گئی۔ ذرائع کے مطابق حملہ آوروں نے روزہ کھلنے سے چند منٹ پہلے بارود سے بھری گاڑیاں کینٹ چھاؤنی کے اندر لے جانے کی کوشش کی، اس دوران سکیورٹی اہلکاروں نے حملہ آوروں کو مختلف انٹری پوائنٹس پر نشانہ بنایا لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی گاڑیاں مرکزی دیوار سے ٹکرا دیں۔ بارود سے بھری گاڑیوں کے دھماکوں سے قریبی مسجد کی چھت گر گئی اور کئی نمازی مارے گے۔

جولائی 2024 میں کینٹ چھاونی پر ہونے والے حملے کے حوالے سے فوجی ترجمان نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ اٹیک پاکستانی طالبان کے حافظ گل بہادر گروپ نے کیا تھا۔ بنوں میں حالیہ حملے کی ذمہ داری بھی جیش فرقان محمد نامی گروپ نے قبول کی ہے جو شمالی وزیرستان کے وزیر قبیلے سے تعلق رکھنے والے حافظ گل بہادر کی سربراہی میں کام کر رہا تھا، گل بہادر کا تعلق افغان سرحد کے قریب ہی واقع مداخیل گاؤں سے ہے۔ وہ جمیعت علمائے اسلام نامی طلبہ تنظیم کا سرگرم رکن تھا اور اپنی ذاتی اثر و رسوخ کی وجہ سے مختف تنازعات میں لوگوں کے تصفیے بھی کرواتا تھا۔

شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافی رسول داوڑ نے بتایا کہ حافظ گل بہادر ابتدا ہی سے منظرعام پر بہت کم آتے تھے اور میڈیا سے بات بھی نہیں کرتے تھے۔2008 میں حافظ گل بہادر نے شمالی وزیرستان میں مغربی میڈیا کے صحافیوں کے کام کرنے پر پابندی لگا دی تھی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ مغربی میڈیا میں کام کرنے والے صحافی صحافت کی آڑ میں جاسوسی کرتے ہیں۔ حافظ گل بہادر کے ساتھی مولوی صادق نور نے 2006 میں شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ میں میوزک سی ڈی کیسٹس اور حجاموں کے داڑھی منڈنے پر پابندی بھی لگائی تھی جبکہ اس وقت علاقے کے لوگوں پر ’شرعی ٹیکس‘ بھی نافذ کیا گیا تھا۔

حافظ گل بہادر اور ٹی ٹی پی کے آپس میں بہتر تعلقات ہیں لیکن دونوں گروپس کارروائیاں الگ الگ کرتے ہیں اور اس کی ذمہ داریاں قبول کرتے ہیں۔ حافظ گل بہادر گروپ کا زیادہ اثر و رسوخ شمالی وزیرستان، بنوں اور لکی مروت تک محدود ہے۔‘

اس سے پہلے پاکستانی حکومت کی جانب سے بارہا کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے شدت پسند افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ پاکستان فوج کی جانب سے 18 مارچ 2024 کو بھینفوجی ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ افغانستان سے آنے والے شد پسند 16 مارچ کو وزیرستان کی سکیورٹی چیک پوسٹ حملے، چترال میں سرحد پار سے حملوں، بلوچستان کے ژوب میں ملٹری کمپاؤنڈ اور اس طرح کے دیگر حملوں میں ملوث ہیں۔ چنانچہ پاکستان افغان حکومت سے حفظ گل بہادر کی حوالگی کا مطالبہ بھی کر چکا ہے۔ دوسری جانب افغان طالبان نے پاکستانی حکومت کے اس موقف کی بارہا تردید کی ہے کہ ٹی ٹی پی کے شدت پسند افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں لیکن امریکہ کی چند ماہ قبل افغانستان کے سکیورٹی حالات پر مبنی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’ٹی ٹی پی کے جنگجو افغانستان میں موجود ہیں اور ان کو افغان طالبان کی حمایت بھی حاصل ہے‘۔

Back to top button